بلاگ
Time 18 اکتوبر ، 2019

’حکومت کو مولانا کی گرفتاری کا مشورہ‘

پرویز خٹک تحریک انصاف سے پہلے اے این پی اور پیپلز پارٹی میں رہے ہیں: فائل فوٹو

دھرنے کا ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے، ہر طرف دھرنے کا شور ہے۔ پہلے تو حکومتی پارٹی اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں تھی مگر جب مولانا فضل الرحمٰن خان ناصر نے سلامی کے چبوترے پر کھڑے ہو کر جھلک کروائی اور سامنے سے ڈنڈا بردار گزرے تو کافی لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے۔

سوشل میڈیا نے اس میں مزید رنگ بھر دیا، آپ حیران ہوں گے کہ میں نے مولانا صاحب کا پورا نام کیوں اُن کے قبیلے سمیت لکھ دیا ہے۔

دراصل یہ کام مجبوری میں کیا ہے چونکہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے پہلوان (معاف کرنا) سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ’’میں بھی پٹھان ہوں اور مولانا فضل الرحمٰن بھی پٹھان ہیں، ہم انہیں جرگے کی دعوت دیں گے‘‘۔

میں یہاں پرویز خٹک کا وہ نام نہیں بتانا چاہتا جو رانا ثناء اللہ نے رکھا تھا البتہ ان دونوں پٹھانوں کے قبیلوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ پرویز خٹک کے تو نام ہی سے قبیلہ ظاہر ہے کہ وہ خٹک ہیں۔

ثقافتی دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ خٹک ڈانس بہت مشہور ہے، خٹک قبیلے کے لوگ زیادہ تر ضلع نوشہرہ اور کرک میں آباد ہیں۔

اے این پی کے مرحوم سربراہ اور پشتو کے نامور شاعر اجمل خٹک سے میری دوستی رہی ہے۔

مولانا مدرسوں کی بات کرتے ہیں تو سب سے بڑا مدرسہ دارالعلوم حقانیہ خٹکوں کے علاقے اکوڑہ خٹک میں ہے، مولانا فضل الرحمٰن کے استاد مولانا سمیع الحق یہیں درس دیتے رہے۔

پرویز خٹک تحریک انصاف سے پہلے اے این پی اور پیپلز پارٹی میں رہے ہیں، ایچی سن کالج لاہور میں پرویز خٹک، عمران خان اور چوہدری نثار علی خان کے قریبی دوست تھے، رائے عزیز اللہ سے بھی ان کی دوستی تھی، فیصل صالح حیات اور مرتضیٰ بھٹو بھی اسی زمانے میں وہاں پڑھتے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن سادہ طبیعت کے زیرک آدمی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ میں وہ سب سے چالاک اور ہوشیار آدمی ہیں، انہیں وقت پر چال بدلنا آتا ہے حالانکہ وہ ایچی سن کے نہیں پڑھے ہوئے۔

وہ تو ملتان اور اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم رہے، مولانا کی چالاکیوں کی گواہی خود ان کے والد مفتی محمود نے دی تھی۔ حالات نے ان کی گواہی کو سچ ثابت کیا، مولانا ہر عہد میں اقتدار میں رہے، مشرف دور میں تو وہ بیک وقت حکومت میں بھی تھے اور اپوزیشن میں بھی۔

یہ اعزاز کوئی اور حاصل نہیں کرسکا۔ مولانا حالات کے تناظر میں اپنے تحفظات بدلنے کے ماہر ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے رہنے والے مولانا فضل الرحمٰن کا تعلق پٹھانوں کے قبیلے ناصر سے ہے۔

ناصر قبیلے کے لوگ بلوچستان میں بھی ہیں اور خیبرپختونخوا میں بھی۔ اپنے پرانے دوست یعقوب ناصر بلوچستان سے ہیں، مولانا اردو، فارسی، عربی، پشتو اور سرائیکی سمیت کئی زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ کئی امیروں سے ان کی دوستیاں ہیں، مولانا شاعر بھی ہیں اور والی بال کے کھلاڑی بھی۔

اگرچہ مولانا نے طاقت کا مرکز پشاور کو شو کیا ہے مگر مولانا کے زیادہ لوگ بلوچستان سے آئیں گے۔ ویسے بھی آج کل ٹی وی چینلز پر مولانا غفور حیدری، حافظ حسین احمد اور حافظ حمداللہ نے مورچہ سنبھالا ہوا ہے۔

مولانا کی چالاکی جے یو آئی کے رہنمائوں کو ٹی وی چینلز پر لے آئی ہے جو میڈیا کل تک جے یو آئی کے لوگوں کو نہیں بلاتا تھا، آج ان کے پروگرام مولویوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔

اس عجیب سیاسی موڑ پر لوگ حیران ہیں، پہلے پہل تو پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ بھی مخمصے کا شکار تھیں پھر مولانا نے ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ دونوں رام ہوگئیں، اب ڈرائیونگ سیٹ پر مولانا ہی نظر آرہے ہیں۔ جہاں تک حکومتی پارٹی کا تعلق ہے تو وہ ابھی تک اس سوچ میں گم ہے کہ آخر مولانا کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں۔

مولانا کے مطالبات کیا ہیں، قصہ مختصر یہ کہ انہیں مولانا کے دھرنے کی بالکل سمجھ نہیں آرہی، شاید اسی لئے فیصل واوڈا یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ’’مولانا بندے مروانا چاہتے ہیں‘‘۔

اعجاز شاہ بڑے اطمینان سے کہتے ہیں کہ ’’مولانا اسلام آباد نہیں آئیں گے‘‘ فردوس عاشق اعوان کو چومکھی جنگ لڑنا پڑرہی ہے، انہوں نے چھٹی کے دن سیالکوٹ میں ارشاد کیا ’’دھرنے کا نہ اسلام سے تعلق ہے اور نہ ہی جمہوریت سے‘‘ کچھ افلاطونی بیانات فواد چودھری کے بھی سامنے آئے ہیں۔

وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ....’’مولانا کے دھرنے کو سنجیدہ نہ لیا جائے‘‘ کچھ حکومتی اکابرین نے مولانا کی گرفتاری کا مشورہ دیا ہے لیکن اگر مولانا کو گرفتار کیا گیا تو دھرنے میں اور شدت آئے گی۔

بیانات، دھمکیوں اور مذاکرات کی پیشکشوں میں مولانا فضل الرحمٰن بضد ہیں کہ وہ اسلام آباد آکے رہیں گے، وہ روزانہ کہیں نہ کہیں میڈیا ٹاک کردیتے ہیں، میڈیا کو نیا مصالحہ مل جاتا ہے۔ اب مولانا نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ مذاکرات کے لئے بہت تاخیر ہوگئی ہے، اب پہلے استعفیٰ اور پھر مذاکرات، اس پر حکومت راضی نہیں ہے۔

میری اطلاعات کے مطابق مولانا اسلام آباد کا رخ کرکے رہیں گے، انہوں نے مزید گرمائش پیدا کرنے کے لئے مارشل لائی طاقتوں کو بھی دھمکانا شروع کردیا ہے، جمہوریت کے اس کھیل میں خرابی نظر آرہی ہے۔ ہوسکتا ہے مولانا کے مطالبات اسلام آباد آکر مزید تبدیل ہوجائیں اور وہ نظام کی تبدیلی کی باتیں شروع کردیں۔

احسان الٰہی احسانؔ کی غزل کے چند اشعار پیش کررہا ہوں۔ ان اشعار کو سیاسی نگاہوں سے دیکھنے کی بجائے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے پڑھئے

کسی پرجوش جذبے تک ہمیں خاموش رہنا ہے

کھلی بارش کے جھرنے تک ہمیں خاموش رہنا ہے

نہ باہر کی خبر ہم کو، نہ اندر کا پتا ہم کو

نجانے کتنے عرصے تک ہمیں خاموش رہنا ہے

ترے لفظوں کی مکاری چھپا دیتی ہے سچائی

کسی پرزور دھرنے تک ہمیں خاموش رہنا ہے

تمہاری محفلیں ساری ہمیں ہیں خوار کرنے کو

تمہاری بزم اٹھنے تک ہمیں خاموش رہنا ہے

یہ ہنگامہ نہیں معلوم کب تک شور ڈالے گا

اسے خاموش رکھنے تک ہمیں خاموش رہنا ہے

تمہیں احسانؔ جلدی ہے مگر ہم پہ ہے پابندی

ابھی کچھ راز کھلنے تک ہمیں خاموش رہنا ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔