23 اکتوبر ، 2019
چینی حکومت پی ٹی آئی کی قیادت سے چار وجوہات کی بنا پر شاکی تھی۔ اول اس بنیاد پر کہ عمران خان کے بیٹے برطانیہ کے شہری ہیں۔
دوم اس بنیاد پر کہ نواز شریف اور بالخصوص شہباز شریف ان کے فیورٹ تھے کیونکہ انہوں نے سی پیک پر ویسے کیا جیسے چینیوں نے چاہا۔
سوم اس بنیاد پر کہ چینی صدر کو سی پیک کے حوالے سے انتہائی اہم دورہ پاکستان پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا تھا اور چہارم اس بنیاد پر کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور پختونخوا کی حکومت نے مسلم لیگ(ن) کی دشمنی میں سی پیک کے حوالے سے چینیوں کے لئے ناپسندیدہ رویہ اختیار کیا تھا۔
انتخابات کے بعد بڑی مشکل سے ان کے چین کے ساتھ تعلقات استوار کئے گئے لیکن ان کے وزرا کے بیانات اور رویے سے چین بدظن ہوگیا۔ دوبارہ چین کے ساتھ وعدے وعید ہوئے لیکن درمیان میں آئی ایم ایف آٹپکا۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران امریکہ اور آئی ایم ایف کا مطالبہ رہا کہ سی پیک کے معاہدوں کی تفصیلات اس کے ساتھ شیئر کی جائیں۔
اب آئی ایم ایف کے نمائندے وزیر خزانہ بنے اور آئی ایم ایف ہی کے نمائندے چیئرمین ایف بی آر بنے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک کے حوالے سے چین کا رویہ سرد مہری کا شکار ہوگیا ہے لیکن عمران خان صاحب پھر بھی زندہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں اور باقی بیڈ سیاستدان ہیں۔ وہ پھر بھی محب وطن ہیں لیکن زرداری اورنواز شریف خاکم بدہن مودی کے یار ہیں۔
مودی ہٹلر کا پیروکار آج سے نہیں سالوں سے ہے۔ مسلمانوں کےقاتل کا خطاب اسے آج نہیں کئی سال پہلے ملا تھا جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ مسلمان اور پاکستان کا دشمن نمبرون وہ پہلے دور حکومت میں بھی تھا۔
اس کے انتخابی منشور میں بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا نکتہ شامل تھا لیکن وزیراعظم عمران خان نے فرمان جاری کیا کہ مودی کے دوبارہ منتخب ہونے سے مسئلہ کشمیر کے حل کا امکان بڑھ جائے گا تاہم وہ پھر بھی زندہ باد ہیں جبکہ ان کے مخالف سیاستدان مودی کے یار ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں اور ان کے مخالفین بیڈ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے ضمن میں پاکستان سے بھی بعض کوتاہیاں ضرور سرزد ہوئی ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کی بے وفائیوں کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا لیکن اپنی سرزمین کو کبھی امریکہ کے لئے ایران کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا بلکہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ امریکہ کے ساتھ اس کے رابطے کے لئے استعمال ہوتا رہا۔
ایران افغانستان کے تناظر میں بھارت کا اسٹرٹیجک پارٹنر رہا اور اس کی سرزمین سے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس اور دہشت گرد پاکستان آئے لیکن پاکستانی سرزمین اس واضح انداز میں ایران کے خلاف کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ ایران الزام لگاتا رہا لیکن پاکستان تردید کرتا رہا۔
اب وزیراعظم عمران خان نے ایرانی سرزمین پر جاکر اعتراف کیا کہ پاکستانی سرزمین ایران کے حلاف استعمال ہوئی لیکن وہ پھر بھی زندہ باد ہیں جبکہ ان کے مخالف سیاستدان مردہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ اور ان کے مخالفین بیڈ سیاستدان ہیں۔
قندھار سے طالبان خود نکلے تھے یا پھر امریکی سی آئی اے اور یونیکال کمپنی نے نکالے لیکن اس تاریخی حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ انہیں طاقتور اور کابل کا حاکم بنانے میں پاکستان اور سعودی عرب کا کلیدی رول تھا تاہم یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ القاعدہ کو بنانے میں پاکستان یا کسی اور ملک کی ایجنسی کاکوئی کردار نہیں تھا۔
القاعدہ کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب سوویت یونین افغانستان سے نکل رہا تھا۔ اس کے لوگوں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کےدنوں میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی سے انفرادی حیثیت میں مدد اور ٹریننگ لی ہوگی لیکن تب وہ مجاہدین کا حصہ تھے البتہ تاریخی طور پراس بات کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ پاکستانی ایجنسیوں نے القاعدہ کو بنایا یا اس کے لوگوں کو ٹریننگ دی لیکن ہمارے وزیراعظم امریکہ میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ القاعدہ کو ہم نے بنایا اور اسے ٹریننگ دی۔ تاہم وہ پھر بھی زندہ باد ہیں اور ان کے مخالف مردہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں اور ان کے مخالفین بیڈ۔
پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے تنازع کو اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تووہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کےساتھ اپنی سرحد کو مستقل سرحد کہتا ہے جبکہ افغان حکومت اسے مستقل سرحد کی بجائے ڈیورنڈ لائن کہتی ہے۔
پوری دنیا بھی پاکستان کی ہمنوا بن کر اسے سرحد مانتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ یا کسی اور عالمی فورم پر یہ تنازع کی صورت میں موجود نہیں۔ عملاً افغان حکومت بھی اسے سرحد تسلیم کرتی ہے کیونکہ اسی سرحد کے آر پار دونوں کے امیگریشن حکام موجود ہیں اور جب قبائلی علاقہ جات سے بھی افغانستان میں کوئی کارروائی ہوتی ہے تو افغان حکومت احتجاج کرتی ہے کہ پاکستانی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہوئی۔ ہاں البتہ افغانستان کے اندر یہ ایک سیاسی اور جذباتی ایشو ہے۔
اب ہمارے وزیراعظم نے امریکہ میں ارشاد فرمایا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی باقاعدہ سرحد موجود نہیں۔ ان کے اس بیان کو آج تک افغان میڈیا میں یوں کیش کیا جارہا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے افغان حکومت کے موقف کی حمایت کردی لیکن وہ پھر بھی زندہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں جبکہ ان کے مخالفین بیڈ۔
کسی زمانے میں گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا تذکرہ ہوتا تھا لیکن اب پاکستان میں سیاستدان بھی گڈ سیاستدان اور بیڈ سیاستدان میں تقسیم کردئیے گئے ہیں۔بیڈ سیاستدان معمولی سی غلطی کرے تو ناقابل معافی لیکن گڈ سیاستدانوں کو کچھ بھی کرنے اور کہنے کی اجازت ہے۔
ابھی تو صحافی بھی گڈ اور بیڈ میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ گڈصحافیوں کو کچھ بھی کہنے اور کرنے کی اجازت ہے لیکن بیڈ صحافیوں کے لئے اصول مختلف ہے۔
اب تو دھرنے بھی گڈ اور بیڈ ہوگئے ہیں۔ گڈ سیاستدانوں کے دھرنے بھی گڈ اور حلال ہوتے ہیں جبکہ بیڈ سیاستدانوں کے دھرنے بھی بیڈ اور حرام ہوتے ہیں۔