25 اکتوبر ، 2019
تاریخِ پاکستان کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے یہ میرا ’اندازہ‘ یا پیش گوئی ہے، جو غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے جیسے اب پاکستان کے ہر وزیراعظم کا مقدر جیل ہوگا، چاہے وہ چند ماہ وزیراعظم رہا ہو یا تین بار منتخب ہو کر وزارتِ عظمیٰ پر متمکن ہوا ہو۔
شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال کی مانند گرفتار نہ کئے جاتے لیکن شومئی قسمت کہ وہ کچھ ماہ کے لئے وزیراعظم بن گئے۔
وزیراعظم بننے کے بعد نیب کے ہاتھوں اُن کی گرفتاری اوپن سیکرٹ (open secret)تھا کیونکہ مقصد وزیراعظم کو گرفتار کرنا اور ذلیل کرنا تھا نہ کہ شاہد خاقان عباسی کو کسی آزمائش میں ڈالنا۔
راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی یا کوئی اور نامزد تابع فرمان وزیراعظم ہر کسی کو بہرحال جیل جانا پڑا۔ اس لئے وہ تمام سیاستدان جو وزارتِ عظمٰی کا خواب دیکھ رہے ہیں یا یہ تمنا پال رہے ہیں ابھی سے جیل جانے کی پریکٹس کرلیں تاکہ بعد ازاں ’’تکلیف‘‘ کی شکایت نہ کریں۔
میں علمِ نجوم یا پامسٹری یا روحانیت کا طالبعلم نہیں کہ مجھے اپنی پیشین گوئی پر سو فیصد اعتماد ہو، میں تو تاریخ کا ادنیٰ سا طالبعلم ہوں اور اسی حوالے سے اندازے لگاتا اور مستقبل میں جھانکتا ہوں۔
رات سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی خطرناک بیماری، اسپتال آمد، مسلم لیگی قیادت کا احتجاج اور حکومتی ترجمانوں کے طنز سن کر مجھے بار بار احساس ہوتا رہا کہ اس سارے واقعہ میں عبرت کا بے پناہ سامان پوشیدہ ہے۔
لندن سے علاج کروانے کے عادی سابق وزیراعظم کی بے بسی، جیل میں بیماری اور نگرانی کرنے والوں کی سرد مہری، سابق طاقتور وزیراعلیٰ کی آنکھوں میں آنسو، اُن کی کمر درد کو فراموش کرکے بار بار اسی اسپتال کی ’مریض گردشوں‘ میں خواری جہاں کبھی ان کی آمد پر چڑی بھی پر نہیں مارتی تھی، ادھر بیمار مریم نواز کا جیل میں تڑپنا اور باپ سے ملنے کے لئے بے چین ہونا... یہ سب سوچنے اور غور کرنے کے مقامات ہیں، اس قدر طاقتور انسان کس قدر کمزور اور بے بس بھی ہو سکتا ہے۔ پھر بھی ہم نظامِ قدرت پر غور نہ کریں اور سبق نہ سیکھیں تو آنکھوں سے پردے کیونکر ہٹیں۔
سیاست اپنی جگہ، انسانیت اپنی جگہ... سچ پوچھئے تو میں یہ سوچ کر غم کی وادیوں میں کھو جاتا ہوں کہ میاں نواز شریف زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا اپنی رفیقہ حیات کو لندن میں چھوڑ کر جیل جانے کے لئے پاکستان آئے، مریم کو بھی جیل کاٹنے کے لئے ساتھ لے آئے۔
باپ بیٹی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تڑپ رہے تھے جب محترمہ کلثوم نواز کی وفات کی خبر آئی۔ بے بسی کی انتہا دیکھئے کہ میاں صاحب اپنی بیگم کی وفات سے کچھ دیر قبل ان سے لندن میں بات کرنا چاہتے تھے لیکن بار بار درخواست کے باوجود سپرنٹنڈنٹ جیل نے بات نہ کروائی۔
کہاں وزیراعظم جس کے نام سے سرکاری افسران سہم جاتے تھے اب گریڈ 18کے افسر کی منت سماجت پر مجبور تھا۔ بیگم کلثوم کی وفات کی خبر مریم کو پہنچی تو وہ صدمے سے ڈھیر ہو گئی۔
میاں صاحب کو اس کی زندگی کے لالے پڑ گئے۔ درمیانی عرصے کی تفصیلات کو چھوڑیے موجودہ منظر نامے پر نگاہ ڈالیے۔ میاں صاحب شدید بیمار ہیں، ڈاکٹر پریشان ہیں کہ بلڈ ٹیسٹ کے نتائج تشویشناک ہیں۔ حکومت ان کو پے رول پر رہا کرکے علاج کے لئے لندن جانے کی اجازت دینے پر مائل نہیں حالانکہ اگر ایسا کر دے تو اس سے حکومتی گراف بہتر ہوگا۔
داماد کیپٹن صفدر کو ایک ایسے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جسے سن کر ہنسی آتی ہے اور جس کے تحت کم سے کم نصف کابینہ کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔
مقامِ غور یہ ہے کہ آج تک نہ کرپشن ثابت ہوئی ہے نہ ایک دھیلا وصول ہوا ہے، تاہم گزشتہ ڈیڑھ سال سے یکطرفہ پروپیگنڈہ جاری ہے اور پروپیگنڈے کا بہرحال اثر ہوتا ہے۔
میں یہ کیوں کہتا ہوں کہ پاکستان کے ہر وزیراعظم کا مقدر جیل ہے اس لئے وزیراعظم بننے کے خواہشمند امیدواروں کو اس کی تیاری کرنا چاہئے۔
ذرا اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیے، پاکستان کا پہلا وزیراعظم جسے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں وہ حسین شہید سہروردی تھا جس نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بنگال کا وزیراعلیٰ رہا، 1946کے دہلی کنونشن میں پاکستان کے حصول کیلئے قرارداد پیش کی۔
سہروردی پہلا وزیراعظم تھا جس نے چین کا دورہ کیا لیکن اسے ایوبی مارشل لاء کے دور میں 1962میں گرفتار کر لیا گیا۔ قصور یہ تھا کہ اس نے ڈٹ کر مارشل لاء کی مخالفت کی تھی۔
آمر حکومت نے اس کی ایسی کردار کشی کی کہ اسے مشکوک بنا دیا۔ اس کے بعد جونیجو کے سوا کوئی ایسا وزیراعظم نہیں گزرا جسے جیل کی ہوا نہ کھانا پڑی ہو۔ جونیجو کو کینسر کے مرض اور جنرل ضیاء الحق کی ناگہانی موت نے جیل سے بچا لیا۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو، محترم میاں نواز شریف، محترم یوسف رضا گیلانی، محترم راجہ پرویز اشرف اور محترم شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ سب کے سب نیب کے شکنجے میں ہیں اور جیل کی آزمائش سے گزر چکے ہیں۔
آمرانہ حکومتیں اپنی سیاسی راہ صاف کرنے کے لئے سیاسی وزرائے اعظم کی نہایت سائنسی انداز سے کردار کشی کرتی ہیں لیکن افسوس کہ خود سیاسی حکومتیں بھی اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہیں۔
نتیجے کے طور پر پاکستان میں سیاست گالی اور کرپشن کا دوسرا نام بن چکا ہے جس نے نہ صرف جمہوریت کی بنیادیں کمزور کر دی ہیں بلکہ عوام کو بھی اس نظام سے بدظن کر دیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا بھی سب سے بڑا کارنامہ سیاستدانوں کی مسلسل کردار کشی ہے اور سابق وزرائے اعظم کو جیلوں میں ڈالنا۔
مختصر یہ کہ اگر پاکستان کی تاریخ کی بنیاد پر پیش گوئی کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ہر وزیراعظم کا مقدر جیل ہے اور شاید یہی پاکستانی وزارتِ عظمیٰ کا انجام ہے۔
مرشدی اقبالؔ سے معذرت کے ساتھ:
ہو ’’وزارت‘‘ کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے