27 اکتوبر ، 2019
اسلام آباد کے آنکھ اور ذہن رکھنے والے بتاسکتے ہیں کہ انہیں گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں یا بھاری بوٹوں کی دھمک۔ کس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ کس کے تخت کے پائے ہل رہے ہیں۔ ایسے ہی کچھ آمد ہورہی تھی لیکن غزل پوری نہیں کی۔
ہے تیغ بے نیام۔ اشارہ کہاں سے ہے
ہے یہ سوال عام۔ اشارہ کہاں سے ہے
حرکت میں کیسے منبرو محراب آگئے
یا الیّھا السلام۔ اشارہ کہاں سے ہے
آزادی مارچ اگر چہ صرف مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جمعیت علمائے اسلام ف کا ہے لیکن پورے ملک میں اسے ملاؤں کا مارچ کہا جارہا ہے۔ ساتھ ساتھ اقبال کا یہ مصرع بھی کراچی سے رحیم یار خان تک لبوں پر پایا۔
ملّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
مفتی محمد نعیم اور مفتی رفیع عثمانی جیسے جید علما کے بیانات بھی میڈیا پر کہ وہ دینی مدارس کے طلبہ کو صرف اپنی تدریس تک محدود کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ سیاسی سرگرمی میں حصّہ لینے سے منع کررہے ہیں۔ میں کم علم ہوں یہ معلوم نہیں کہ یہ بیان کس کے استفسار پر ایک فتوے کی صورت میں ہے یا میڈیا کے کسی سوال کے جواب میں فتوے کی اپنی ایک شرعی حیثیت ہوتی ہے۔
اسلام کی تاریخ میں مفتیان کرام کے فتوؤں نے ہمیشہ ہلچل مچائی ہے تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ تاریخ کے تناظر میں ہی دیکھیں کسی بھی عالم دین کا حرکت میں آنا۔ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے آواز بلند کرنا دین کا حرکت میں آنا ہوتا ہے۔ عام مسلمان اس سے احیائے دین کی امید رکھتے ہیں۔ وہ اس کے لیے تن من دھن لٹانے کو تیار ہوتے ہیں۔ یہ بھی علمائے اسلام کی جمعیت کی کال ہے ۔کسی سیکولر سیاسی پارٹی کی کال نہیں ہے۔ یہ پی پی پی کا لانگ مارچ ہے نہ مسلم لیگ ن کی راہ نجات، درس نظامی، دورۂ حدیث، فقہ، اور شریعت کے اساتذہ اور شاگرد اگر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہورہے ہیں تو یقیناََ انہوں نے دین متین کو لاحق خطرات کا ادراک کیا ہے۔
یقیناََ تعلیمات اسلامی کو پابندیاں درپیش ہیں اگر ایسا ہے تو یہ سارے علماء۔مفتیوں اور مشائخ کی آزمائش ہے۔ وہ صرف بیان جاری کرکے اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ اگر مولانا فضل الرحمٰن احیائے دین اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے باہر نکل رہے ہیں تو دوسرے مولاناؤں کو بھی ان کے ہم قدم ہونا چاہئے۔
اگر ان کے خیال میں وہ ایسا نہیں کررہے۔ ان کے صرف سیاسی مقاصد ہیں تو انہیں کھل کراس کی صراحت کرنی چاہئے۔ دوسری طرف یہ صدیوں کا ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف بارہویں تیرہویں صدیاں ہیں۔ دوسری طرف بیسویں اکیسویں صدیاں ہیں عمران خان کو تو بھول جائیے۔
یہ امتحان ہے سول سروسز اکیڈمی، این ڈی یو، امریکہ یورپ کی اکیڈمیوں میں تربیت پانے والوں کا کہشہریوں کو انتشار سے کیسے بچایا جائے۔ ان کی جان مال کی حفاظت کیسے کی جائے؟ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کا ادراک کیسے کیا جائے۔ اگر وہ جائز معاملات کے لیے میدان میں نکلے ہیں تو ان سے مذاکرات کرکے ان معاملات کو طے کیسے کیا جائے؟
یہ ڈپٹی کمیشنر، سیکرٹریز، مینجرز، پیرا ملٹری فورسز صرف حکومت وقت کے غلط اور درست فیصلوں کی تعمیل کے لیے نہیں ہوتے ان کے اپنے ذہن بھی ہوتے ہیں۔ ملک کے قوانین اور آئین کے نکات کا علم ان کو بھی ہوتا ہے ان کو تنخواہیں آئین کی پاسداری کے لیے دی جاتی ہیں تو کیا وہ 1970۔ 1977۔1983 اور 2007 کی تاریخ دہرائیں گے؟ یا اکیسویں صدی کی فہم و فراست اور انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔
جہاں تک حکومتی سربراہ یعنی عمران خان کے استعفیٰ کا سوال ہے کوئی اتنا خطرناک مطالبہ نہیں ہے لیکن پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں استعفے کی روایت کم ہی نظر آتی ہے شہادتیں اور رسوائیاں تو ہیں۔ استعفیٰ دے کر عزت سے رخصت ہونے کی درخشاں مثالیں بہت کم ہیں۔
مؤرخ اور محققین جانتے ہیں کہ بہت سے نازک مواقع پر اگر بر وقت بلکہ قبل از وقت استعفیٰ دے دیا جاتا تو عزت و وقار مقدر بنتا اور ملک بھی انتشار اور ادبار سے محفوظ رہ سکتا تھا لیکن ہمارے ہاں ہر حکمران نے اپنے آپ کو ناگزیر سمجھا ان کے درباریوں نے کہا آپ آخری امید ہیں، یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں ان کے مخالفین نے کہا کہ یہ اور ملک ساتھ نہیں چل سکتے۔
صدر ایوب خان اگر عشرہ اصلاحات منانے کی بجائے استعفیٰ دے کر اپنے ہی آئین کے تحت نئے انتخابات کروادیتے یا اپنے اختیارات آرمی چیف کی بجائے اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرتے تو تاریخ کتنی مختلف ہوتی ۔
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا ذوالفقار علی بھٹو انتخابات پر پی این اے کی تنقید کے ساتھ ہی مستعفی ہوجاتے دوبارہ الیکشن کروادیتے ، جنرل ضیاء جونیجو کو برطرف کرنے کی بجائے خود اقتدار چھوڑ دیتے، جنرل پرویز مشرف فروری میں الیکشن کروانے کے بعد خود مستعفی ہوجاتے، میاں نواز شریف پانامہ الزامات کے بعد خود استعفیٰ دے دیتے تو جنوبی ایشیا میں حالات کتنے پُر سکون ہوتے ۔
لیکن خود حکمرانوں کو یہ زعم ہوتا ہے کہ میں نہ ہوں گا تو ملک کا کیا ہوگا آس پاس کے درباری اپنی قیادت خطرے میں دیکھتے ہیں اس لیے وہ اپنے چیف کو یہی مشورہ دیتے ہیں آپ استعفیٰ کا نہ سوچیں۔ یہ کرسی بہت مضبوط ہے ہم سب ایک صفحے پر ہیں پھر وہی ہوتا ہے جو تاریخ منطق کے عین مطابق ہوتا ہے پہلے نیب نے پیش رفت روک رکھی ہے اب آزادی مارچ نے ۔ باقی رہے نام اللہ کا۔