09 نومبر ، 2019
جب ریاستی بیانیے میں ماورائے عدالت قتل جائز قرار دئیے جائیں گے، نااہل افسران کو اعلیٰ میڈل اور ترقی دی جاتی رہے گی، جب ایسی پالیسی کو کسی بھی آپریشن کی کامیابی تصور کیا جائے گا اور عدالتیں ایسے واقعات پر مصلحت سے کام لیں گی تو ملزمان ایسے ہی بری ہوتے رہیں گے جیسا کہ سانحہ ساہیوال میں ہوا، میر مرتضیٰ بھٹو قتل میں ہوا تھا۔ اب دیکھیں نقیب اللہ محسود کے کیس میں کیا ہوتا ہے۔
اب بھی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ 72 برسوں سے ’’پولیس‘‘ کو غیر سیاسی کیوں نہیں کیا جاتا اور جو تھوڑی بہت ’’اصلاحات‘‘ ہوتی بھی ہیں ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو یہ نہیں ہونے دیتیں۔ اب تو کالی بھیڑیں اتنی ہیں کہ سفید اور صاف ستھری بھیڑوں کو تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ سانحہ ساہیوال میں ایک کردار ایسا بھی ہے جو سانحہ مرتضیٰ میں بھی تھا۔ مجھے تو انتظار ہے کہ جن جن حکمرانوں نے انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا وہ خود اپنے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
تم کچھ کہو میں تم کو برا کچھ نہیں کہتا
پر میں اسے قاتل کے سوا کچھ نہیں کہتا
سانحہ ساہیوال کی ویڈیو تو پھر بھی فاصلے سے بنائی گئی تھی مگر کچھ سال پہلے کراچی کے ایک پارک میں قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں ایک بے گناہ کو جس طرح گولی ماری گئی تھی وہ ویڈیو شاید کچھ لوگوں کو آج بھی یاد ہوگی۔ میں نے وہ JITپڑھی ہیں جس کے آخر میں لکھا تھا کہ اسے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارا گیا۔ کچھ ایسے ہی الفاظ تھے۔
بدقسمتی سے ریاست نے ماورائے عدالت قتل کو ’’انصاف‘‘ کا آسان راستہ تصور کر لیا ہے کہ چونکہ خطرناک ملزمان، دہشت گرد اور ڈاکوؤں کے خلاف مقدمہ چل نہیں سکتا، گواہی آتی نہیں لہٰذا ’’سرِعام‘‘ گولی مارو، سو مقدمات اس کے کھاتے میں ڈالو اور ’’کیس فائل‘‘ بند کردو۔
آخر کوئی تو وجہ ہے کہ ’’پولیس ریفارم‘‘ نہیں ہونے دی جاتیں۔ اگر کوئی اچھا قانون آ بھی جائے تو اس کا حلیہ بگاڑ دیا جاتا ہے جیسا کہ سندھ اور پنجاب میں پولیس آرڈر 2002کے ساتھ ہوا اور پنجاب میں وزیراعظم عمران خان کے سارے دعوے اور وعدے صرف بیانات تک محدود رہے۔
بلوچستان میں آج بھی پولیس کا عمل دخل کوئٹہ سے باہر نہیں ہے اور خیبر پختونخوا میں سابق سربراہ ناصر درانی کے بعد معاملہ آگے نہیں بڑھا۔ ویسے بھی وہاں ماورائے عدالت قتل شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں البتہ غیرت کے نام پر قتل کی روایت بہت پرانی ہے۔
ایک زمانے میں نعرہ تھا، ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ اب ذرا کوئی پولیس افسر ساہیوال میں ان بچوں کے سامنے جاکر یہ نعرہ لگائے جنہوں نے ایسی ہی وردی پہنے افسروں کے ہاتھوں اپنے والدین اور پیاروں کو مارتے دیکھا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد تو ان کی بیٹی فاطمہ بھٹو اور بیٹے ذوالفقار جونیئر نے اپنے آپ کو پاکستانی سیاست اور کسی حد تک ریاست سے دور کرلیا۔ 1994-95کا کراچی آپریشن تو سب کو یاد ہوگا۔
کیا قصیدہ گوئی ہوئی تھی ماورائے عدالت قتل کی یہ کہہ کرکہ ’’ان دہشت گردوں‘‘ کا یہی علاج تھا۔ ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا جواب ماورائے عدالت قتل ہو تو وہ بھی ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ ہی ہوتی ہے۔ ہر قتل کے بعد ایسا ہی ایک کمیشن بنایا جاتا۔ شاید آج بھی محکمہ داخلہ میں ایسی سیکڑوں رپورٹس موجود ہوں گی جن کے آخر میں یہ الفاظ درج ہوں گے کہ ’’پولیس نے فرائض کی ادائیگی میں اپنے دفاع میں یہ کام کیا‘‘۔
انصاف کا نظام بےانصافی پر مبنی ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس ملک میں ایک انصاف عام آدمی کے لئے ہے اور ایک خاص طبقے اور ایک بہت ہی خاص طبقے کے لئے ہے۔ محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے درست لکھا کہ کون سا وزیراعظم ہے جو جیل نہیں گیا بلکہ اس میں تھوڑا اضافہ کرتے ہوئے کونسا سیاسی لیڈر ہے جو جیل نہیں گیا مگر کسی ایک آمر نے بُری تو کیا اچھی جیل بھی نہیں دیکھی۔
سابق گورنر جسٹس(ر) فخر الدین جی ابراہیم کی قدر میں اس لئے بھی کرتا ہو کہ انہوں نے پہلی بار پولیس اور عوام کو قریب لانے کی کوشش کی۔ یہ 1989کی بات ہے جب سندھ میں ڈاکوؤں کا زور تھا اور کراچی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عروج پر تھیں۔ انہوں نے CPLCکی بنیاد رکھی اور دفتر بھی گورنر ہاؤس میں بنایا عام شہری کو جب بھی پولیس سے شکایات ہوتیں FIRدرج نہ کی جاتی تو CPLCکے سربراہ جمیل یوسف اور ناظم حاجی مدد کرتے۔ اغوا کی وارداتوں میں بھی نمایاں کمی آئی۔ بعد میں یہ ادارہ بھی سیاست کی نذر ہو گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب گاڑیوں کی چوریاں بہت بڑھ گئی تھیں گاڑیوں کی ’’سپردگی‘‘ کے معاملات پر بھی سوالات اٹھے تو پتا چلا کہ بات ایوانوں اور بڑے بڑے گھرانوں تک پہنچ گئی ہے۔ پولیس کے خلاف شکایات پر کمیشن بنا (جس کی رپورٹ میرے پاس موجود ہے) تو پتا چلا قانون نافذ کرنے والے تاوان ’’CIA‘‘ سینٹر میں وصول کرتے تھے۔
ماضی کی فائلوں کی طرح جنرل(ر) شفیق الرحمٰن کی رپورٹ بھی سردخانہ کی نظر ہوگئی۔
راؤ انوار ہو یا چوہدری اسلم، رائے طاہر ہو یا ذیشان کاظمی یا ان جیسے بے شمار کردار۔۔۔۔کیا ’’ریاستی بیانیہ‘‘ ماورائے عدالت قتل کے خلاف ہوتا تو مرتضیٰ بھٹو سے لے کر سانحہ ساہیوال یا ماڈل ٹاؤن ہوتا، انصاف کا نظام بے انصافی پر مبنی نہ ہوتا تو کراچی آپریشن پر وہ سوالات نہیں اٹھتے۔
ہمارا نظام خود ہی مجرم پیدا کرتا ہے اور پھر اسے ماورائے عدالت قتل کردیتا ہے ’’سزا‘‘ نہیں دیتا۔ ساہیوال کے یہ بچے جب جوان ہوں گے تو وہ ہم سے تو کہیں گے کہ ’’جنہیں میرے والدین کو تحفظ دینا تھا انہوں نے ہی انہیں سرِعام ہمارے سامنے گولی ماری اور بری ہوگئے‘‘۔