Time 11 نومبر ، 2019
دنیا

عرب اسپرنگ سے داعش کے اختتام تک

فوٹو: فائل

امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے اپنی واپسی کا بار ہا اعلان کر چکا ہے اور حال ہی میں داعش کے سربراہ، ابو بکر البغدادی کی ہلاکت کو اس پر مُہرِ تصدیق ثبت کرنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ داعش کے سربراہ کی موت کی خبر امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے خود بریک کی۔ یاد رہے کہ رواں برس کے آغاز ہی سے داعش کے خاتمے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ پہلے اس کا سہرا رُوس، ایران اور شامی حکومت نے اپنے سَر لیا اور پھر امریکا نے عراق سے اس کا صفایا کرنے کا دعویٰ کیا۔

البتہ البغدادی کی ہلاکت اس بات کا حتمی اعلان ہے کہ اب دُنیا کو واقعی داعش سے نجات مل گئی ہے، جب کہ ماہرین اس کا مطلب یہ بھی لیتے ہیں کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کا کام ختم ہو چکا ہے اور وہاں سے اس کی واپسی یقینی ہے۔ اگر یہ بات دُرست ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا صرف داعش کو ختم کرنے کے لیےاس خطّے میں آیا تھا اورپھر جمہور کی آواز توانا کرنے کے مغربی فلسفے کا کیا بنے گا۔ ٹرمپ نے شام کے اُس علاقے سے بھی امریکی فوج واپس طلب کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جو یو ایس فورسز اور کُردوں کے قبضے میں تھا، تو کیا اب مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو چکا ہے۔

اگر ایسا ہے، تو پھر تُرکی نے شام کے مشرق میں اپنی افواج کیوں اُتاریں اور عراق و لبنان میں ایسے شدید ہنگامے کیوں ہو رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان ممالک کی حکومتیں لرزہ بر اندام ہیں۔ ان ہنگاموں کی شدّت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لبنان کے وزیرِ اعظم، سعد الحریری مستعفی ہو چکے ہیں۔ یمن کا تنازع بھی جاری ہے۔ نیز، آبنائے ہُرمز پر ایران کے ساتھ امریکا کی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ تو پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ خطّے میں رُوس کی پیش قدمی کیسے ممکن ہوئی اور کیا اس کی فوجی کارروائیاں ایک بڑی غیر ملکی طاقت کی مداخلت کے مترادف نہیں۔

عراق، لبنان اور یمن میں ایران کا کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں اور اس پر عرب دُنیا اپنا ردِ عمل بھی ظاہر کر رہی ہے۔ تاہم، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت صرف عرب ممالک ہی میں نہیں، بلکہ پاکستان سمیت مقبوضہ کشمیر، اسپین، ہانگ کانگ، چلی اور وینزویلا میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ ان کے محرّ کات مختلف ہیں۔

فوٹو: فائل

البغدادی کی ہلاکت امریکا کی مخصوص فوجی حکمتِ عملی کی عکّاسی کرتی ہے۔ اس آپریشن کے لیے ایک خصوصی ہنگامی سچویشن رُوم بنایا گیا تھا، جس میں بیٹھ کر ٹرمپ، امریکا کی عسکری قیادت اور خارجہ امور کی ٹیم لمحہ بہ لمحہ سارے عمل کو مانیٹر کرتی رہی۔ منصوبے کے تحت 26اکتوبر کو امریکی وقت کے مطابق شام 5بجے امریکی اسپیشل فورسز کے ہیلی کاپٹرز ایک نا معلوم مقام سے روانہ ہوئے اور 70منٹس میں اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔

امریکی حکّام نے میڈیا کو بتایا کہ اسپیشل فورسز کا مطلوبہ مقام شامی صوبے، ادلیب میں واقع باریشا نامی گاؤں تھا۔ یہاں پہنچ کر ایک چھوٹے سے کمپائونڈ کو نشانہ بنایا گیا، جو تُرکی کی سرحد سے محض5کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹرز تُرک فضائی حدود اور رُوسی افواج کے زیرِ قبضہ علاقوں سے ہوتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچے۔ ٹرمپ کے مطابق، گرچہ اس آپریشن کے حوالے سے رُوس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، لیکن رُوسی فورسز نے مزاحمت کی بہ جائے تعاون کیا۔ جب یہ ہیلی کاپٹرز کمپائونڈ کے قریب پہنچے، تو ان پر فائرنگ کی گئی، جس کے جواب میں ہیلی کاپٹرز سے میزائل فائر کیا گیا۔

امریکی اسپیشل فورسز اور کمپائونڈ میں موجود افراد کے درمیان نصف گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا۔ بعد ازاں، امریکی ہیلی کاپٹرز لینڈ کرنے میں کام یاب ہوئے اور فورسز نے زمینی کارروائی شروع کی۔ چوں کہ کمپائونڈ کے مرکزی دروازے پر بارودی سُرنگیں نصب تھیں، لہٰذا اسپیشل فورسز دیواروں میں بڑے بڑے شگاف کر کے اندر داخل ہوئیں۔ کمپائونڈ کے اندر سُرنگیں بنائی گئی تھیں اور امریکی فوجی اپنے جاسوس کُتّوں کی مدد سے ان میں داخل ہوئے۔ اس دوران البغدادی امریکی فورسز سے اپنی جان بچانے کے لیے ایک ایسی سُرنگ میں داخل ہوگیا کہ جس کا اگلا سِرا بند تھا اور پھر اس نے خود کو ایک دھماکے سے اُڑا لیا۔ دھماکے کے نتیجے میں 3بچّے بھی ہلاک ہوئے، جب کہ کمپائونڈ میں موجود 11بچّوں کو بہ حفاظت نکال لیا گیا۔

دھماکے سے سُرنگ بیٹھنے کی وجہ سے البغدادی کی لاش مسخ ہو گئی ۔ لہٰذا، لاش کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا اور اس کے بعد داعش کے سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ البغدادی کی نشان دہی اُس کے ایک ساتھی نے کی تھی، جسے تُرک افواج نے گرفتار کر کے عراق میں موجود امریکی فوجیوں کے حوالے کیا تھا۔ سی آئی اے کو رواں برس کے وسط میں پتا چلا کہ البغدادی ادلیب میں مقیم ہے اور وہ پانچ ماہ تک سیٹلائٹ کے ذریعے اُس کی نگرانی کرتی رہی۔ جب وہ اس کمپائونڈ میں داخل ہوا، تو اس کے خلاف آپریشن کا حتمی فیصلہ کیا گیا، جس کی ٹرمپ نے باقاعدہ منظوری دی۔آپریشن کے دوران البغدادی کی دو بیویاں بھی ہلاک ہوئیں۔

تاہم، امریکی اسپیشل فورسز کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے کا دعویٰ کیا گیا۔ امریکا نے اپنے تئیں داعش کا قصّہ تمام کر دیا، لیکن اس شدّت پسند تنظیم کے خلاف کارروائیوں کے دوران 5لاکھ شامی شہری جاں بحق اور ایک کروڑ 20لاکھ بے گھر ہوئے، جب کہ داعش کے ہاتھوں لقمۂ اجل بننے والے شہریوں کے اعداد و شمار تاحال سامنے نہیں آئے۔ نیز، اسی داعش ہی کی وجہ سے شام کھنڈر بن گیا اورخطّے کو آگ میں جھونک دیا گیا۔ علاوہ ازیں، مغربی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی داعش کا حصّہ بن گئی۔ لہٰذا، یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے اور تحقیق کی صُورت ہی میں حقائق سامنے آئیں گے۔

شام کی تباہی سے قبل 2010ء میں بیش تر اسلامی ممالک میں ’’عرب اسپرنگ‘‘ کا آغاز ہوا تھا۔ یہ احتجاجی تحریک اس قدر طاقت وَر تھی کہ اس کے اثرات سے بادشاہتوں کے علاوہ خطّے کا شاید ہی کوئی مُلک متاثر نہ ہوا ہو۔ تب مغربی ذرایع ابلاغ نے عرب اسپرنگ کا موازنہ انقلابِ فرانس اور انقلابِ رُوس سے کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی آمد کی نوید سنائی تھی، جس پر سعودی عرب سے لے کر قطر تک کے شاہی خانوادے حیران و پریشان تھے۔ تاہم، یہ انقلاب پورے ایک سال بعد ہی دَم توڑ گیا۔

گرچہ تیونس میں جمہوریت پسندوں کو کسی حد تک کام یابی حاصل ہوئی، لیکن اب وہاں بھی جمہوریت سمجھوتوں کے رہینِ منّت ہے، جب کہ عرب اسپرنگ کے نتیجے میں گزشتہ 8برس کے دوران شام کا جو حال ہوا، وہ پوری دُنیا کے سامنے ہے۔ اس صورتِ حال میں ماہرین یہ سوال پوچھنے میں حق بہ جانب ہیں کہ کیا امریکا اور یورپ اس جمہوریت کی نوید سنا رہے تھے کہ جس کا مقصد داعش کا خاتمہ تھا اور اس کھیل میں عام مسلمان ہی گولیوں کا نشانہ بنے۔ امریکا اور رُوس بار بار مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کا اعلان کرتے رہے ہیں، لیکن عراق میں گزشتہ ایک مہینے سے بھی زاید عرصے سے بد ترین احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ یاد رہے کہ عادل عبدالمہدی نے چند ماہ قبل ہی انتخابات کے بعد عراق کی وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تھی۔

احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کے لیے دارالحکومت، بغداد سمیت ہر شہر میں فوج طلب کی جا چکی ہے۔ تمام شہروں میں کرفیو نافذ ہے اور اب تک سیکڑوں عراقی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ عراقی باشندے بے روزگاری، منہگائی، بدترین گورنینس اور تباہ حال معیشت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ واضح رہے کہ عراق تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا مُلک ہے اور غالبا ًیہ واحد مُلک ہے کہ جس پر امریکا نے فوج کَشی کے بعد اس کے حُکم راں کو ہلاک کیا اور پھر اپنے سخت ترین حریف، ایران کی حمایت سے اپنی مَن پسند حکومت قائم کی۔

نیز، گزشتہ 17برس کے دوران عراق میں قائم ہونے والی مالکی، عابدی اور مہدی حکومت کو امریکا و ایران دونوں ہی کی اَشیر باد حاصل رہی۔ ہر چند کہ امریکا اور ایران کے درمیان شدید مخاصمت پائی جاتی ہے، لیکن جب داعش کے خاتمے کے لیے واشنگٹن نے عراق میں فوجی کارروائی شروع کی، تو تہران نہ صرف اس کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہا، بلکہ اپنی ملیشیاز کے ذریعے اس کی مدد بھی کی۔ اس وقت لبنان بھی حالیہ دَور کے بد ترین احتجاجی مظاہروں سے نبرد آزما ہے۔ حریری حکومت عوام کا ایک مطالبہ تسلیم کرتی، تو فوراً دوسرا سامنے آ جاتا۔ نتیجتاً، وزیرِ اعظم، سعد الحریری کو استعفیٰ دینا پڑا۔ لبنان میں بھی مغربی طاقتیں اور ایران تقریباً ایک ہی پَیج پر ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے دو برس قبل سعد الحریری نے اچانک مُلک چھوڑ کر سعودی عرب میں پناہ لے لی تھی۔

تب ایران نے اسے سعودی عرب کی سازش قرار دیا تھا ۔ پھر فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں کی ضمانت پر وہ وطن واپس آئے۔ واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد لبنان نے فرانس ہی سے آزادی حاصل کی تھی اور ایک زمانے میں لبنانی دارالحکومت، بیروت ’’مشرقِ وسطیٰ کا پیرس‘‘ کہلاتا تھا۔ بہرکیف، لبنان کے عوام بھی بے روزگاری، منہگائی، معاشی بدحالی اور بیڈ گورنینس کے خلاف گھروں سے باہر نکلے ہیں۔

جنوبی ومغربی ایشیا کے اسلامی ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال پائی جاتی ہے۔ امریکا، افغانستان سے جان چھڑوانا چاہتا ہے، لیکن طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو رہی، جب کہ پاکستان میں بھی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں۔ اگر یورپ کی بات کی جائے، تو کچھ عرصہ قبل فرانس میں ’’یلو جیکٹس موومنٹ‘‘ نے صدر، ایمانوئیل میکروں کی حکومت کو ہِلا کر رکھ دیا تھا۔ اسپین میں بھی اس وقت شدید مظاہرے جاری ہیں۔ وہاں کاتالونیا کی علیحدگی کے مطالبے کے باعث بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ نیز، ہانگ کانگ جیسے خوش حال جزیرے میں بھی احتجاج کی گونج سنائی دی۔ تاہم، ان تمام مظاہروں میں معیشت اور سیاسی آزادی قدرِ مشترک ہے۔

نئے ہزاریے کے آغاز کا طرّۂ امتیاز مضبوط معیشت تھی، جس میں جنوب مشرقی ایشیا، چین، یورپ، برازیل اور وینزویلا نے اہم کردار ادا کیا۔ اس زمانے میں امریکا، عراق اور افغانستان پر قابض ہو چکا تھا۔ پھر عراق میں صدّام، لیبیا میں معمر قذافی، مصر میں حُسنی مبارک کا اقتدار انجام کو پہنچا۔ بعد ازاں، مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی قیمت کا گراف بلند ہو گیا، جب کہ خونِ مسلم ارزاں۔

تب سوویت یونین شکست کھا کر رُوس میں تبدیل ہو چکا تھا، لیکن چین کی غیر معمولی ترقّی نے دُنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ معیارِ زندگی بلند ترین سطح کی جانب گام زن تھا اور مستقبل میں سرمائے کی مغرب سے مشرق کی جانب منتقلی کے دعوے کیے جا رہے تھے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا وہیں کھڑے ہیں، جب کہ رُوس اور چین بڑی طاقت بن چکے ہیں۔

مشرقی ایشیا ترقّی کی شاہ راہ پر گام زن ہے اور اس سفر میں چین، جاپان، انڈونیشیا، ملائیشیا، ہانگ کانگ، سنگا پور اور تائیوان کے ساتھ بھارت، بنگلا دیش اور ویت نام بھی شامل ہو چکے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے تین اسلامی ممالک، بنگلا دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے، جب کہ پاکستان سے لے کر تیونس تک زوال پذیر ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر موجود ترکی کی چمک بھی اب ماند پڑ رہی ہے۔

البتہ عرب اسپرنگ نے مشرقِ وسطیٰ کے عوام میں اتنی جرأت پیدا کر دی ہے کی کہ وہ اپنے معاشی و سماجی مسائل کے حل کے لیے اپنے حُکم رانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت یہاں معیشت اور معیارِ زندگی سے لے کر سماجی آزادی تک زیرِ بحث ہیں۔ حتیٰ کہ سعودی عرب جیسی سخت گیر بادشاہت میں بھی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔

وہاں خواتین کو زیادہ مواقع مل رہے ہیں اور سنیماز کھولنےکی باقاعدہ اجازت مل چکی ہے، جب کہ اس سے قبل مغرب، سعودی عرب پر قدامت پسندی کا لیبل لگاتا تھا۔ تاہم، یہ دیکھنا ہو گا کہ اسلامی دنیا اس تبدیلی پر کیا ردِ عمل ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح ایک اور مذہبی مُلک، ایران میں بھی گزشتہ دنوں پہلی بار خواتین کو اسٹیڈیم میں فُٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت اسلامی ممالک میں نوجوانوں کی اکثریت ہے اور ٹیکنالوجی نے ان پر گہرے اثرات مرتّب کیے ہیں۔

ان معاشروں میں سوشل میڈیا کا استعمال عام ہو چکا ہے اور پھر عرب اسپرنگ کے دوران بھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہی کے ذریعے عوام کو احتجاج کے لیے جمع کیا گیا تھا۔ گرچہ تب مرکزی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک دیرپا ثابت نہیں ہو سکی، لیکن کیا آج اسلامی دنیا کی سیاسی جماعتیں اس طاقت کو استعمال نہیں کر سکتیں۔ یہ سوالات افریقا سے لے کر انڈونیشیا تک زیرِ بحث ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی معروف اخبارات اور رسائل و جراید آن لائن ہو چکے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز بھی یو ٹیوب پر دیکھے جار ہے ہیں۔

تاہم، بد قسمتی سے اسلامی ممالک میں ان تبدیلیوں پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دو عشروں کے دوران رُونما ہونے والے واقعات پر کتنی غیر جانب دارانہ تحقیق کی گئی اور تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ تھنک ٹینکس اوّل تو نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہیں بھی، تو وہ حکومت کی سرپرستی کے محتاج ہیں، جو اختلافات برداشت نہیں کر سکتی۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا پر ایک جمود طاری ہے اور اسے توڑنے کی بہ جائے اسے یہ زعم ہے کہ یہ اپنے ماضی کی روایات پر چلتے ہوئے پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ مشرقِ وسطیٰ سے امریکا کی روانگی تو طے ہو چکی، لیکن ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کون سی طاقت یا طاقتیں اس خلا کو پُر کریں گی اور کیا ان کے اطوار وہی ہوں گے، جو ان کے پیش رَو کے تھے۔

مزید خبریں :