12 نومبر ، 2019
پاکستان کے سیاستدانوں کی اکثریت کے برعکس مولانا فضل الرحمان کسی آمر کے بجائے مدرسے کی سیاسی دریافت ہیں۔ فضل الرحمان اکوڑہ خٹک میں قائم مولانا سمیع الحق کے دارالعلوم حقانیہ میں افغان طالبان کے لیڈر ملا محمد عمر سے جونیئر طالب علم تھے۔
گزشتہ چار دہائیوں کے دوران جب سے وہ مذہب کی درس و تدریس سے جڑی جمیعت علماء اسلام ف کے امیر بنے ہیں ان کا انداز سیاست مبہم ہی رہا ۔ کبھی وہ دائیں بازو کی جماعت کے طور پر سامنے آئے تو کبھی آزاد خیالی کی ڈگر پر چلنے کو ترجیح دی۔ ان کا یہی مبہم طرز سیاست کے باعث وہ اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں جس میں ان کی کوشش ہے کو وہ میاں والی سے تعلق رکھنے والے عمران خان کو نیچا دکھا کر ان کی حکومت کا خاتمہ کر سکیں۔
اس بات کے قطعہ نظر کہ آیا مولانا کا "آزادی مارچ" کراچی سے اسلام آباد پہنچنے کے بعد نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے یا نہیں، یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مولانا کی سیاست نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج لوگ مولانا کو قومی رہنما کے طور پر زرداری اور نوازشریف کے مقابلے میں کہیں آگے سمجھتے ہیں۔
فضل الرحمان کی وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ ناصرف غیر معقول اور غیر جمہوری ہے بلکہ یہ ان کی جلد بازی اور غصہ کا عکاس ہے ۔ تاہم ان کے معتقدین کا ایک جم غفیر اسلام آباد میں دھرنا دیے ہے۔ اس محاز آرائی کو بات چیت کے ذریعے حل کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔
شاید مولانا کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ پاکستانی سیاست سے نا واقف 80ء کی دہائی کا کرکٹ سپر اسٹار ان کا ایک طاقتور ترین سیاست حریف ثابت ہو گا۔ ان کے گمان کو سمجھنا اس وقت آسان ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ 1980 میں جب مولانا جمیعت کے امیر بنے تو عمران خان کرکٹ کے میدان میں اپنے جوہر دکھا رہے تھے۔
اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کا سیاسی کیرئیر مولانا کی سیاست سے کہیں مختصر ہے لیکن سیاسی میدان میں ان کی کامیابی مولانا سے بہت آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کے لیے ایک ایسے وزیر اعظم کو قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے طرفہ تماشہ یہ کہ تحریک انصاف نے مولانا کو انہی کے حلقے سے شکست بھی دی ۔ عمران خان نے مولانا کی سیاست میں قدم رکھنے کے 16 سال بعد قدم رکھا لیکن عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کی جیت اس بات سے عیاں ہے کہ تحریک انصاف 2013 سے خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہی ہے۔
میرے خیال میں عمران کی خیبر پختونخوا میں مقبولیت محض ان کی کرکٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ قبائیلی علاقوں میں ہونے والے فوجی آپریشن کے خلاف آواز بلند کرنے کے باعث ہے۔ خان نے مولانا کو سیاسی اور مذہبی دونوں محاذوں پر سخت آزمائش میں ڈالا ۔
تاہم عمران خان کو یہ توقع نہیں تھی کہ فضل الرحمان ایک بڑے مجمعے کو متحرک کر کے اسلام آباد تک لانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ فوج کے "منتخب حکومت " کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے اعلان کے باوجود عمران خان کو موجودہ بحران حل کرنے میں الجھن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پچھلے 10 سالوں میں ، عمران خان مولانا فضل الرحمان کے سب سے بڑے اور مشکل ترین حریف کے طور پر ابھرے اور مولانا جانتے ہیں کہ اگر وہ 'آزادی مارچ' میں سے کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہے تو ان کے لئے پارلیمنٹ میں واپس آنا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کے برخلاف فضل الرحمان نے 2018 کے انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کردیا تھا لیکن انہیں اس وقت مایوسی ہوئی جب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے مولانا کی ایوان میں حلف نہ اٹھانے کی درخواست مسترد کر دی اور نتیجے کے طور پر انہوں نے بھی اپنے منتخب ممبروں کو حلف اٹھانے کی اجازت دے دی۔
مولانا نے اپنی سیاسی تحریک کا آغاز سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے خلاف 1981 میں "جدوجہد برائے بحالی جمہوریت " ، ایم آر ڈی سے کیا۔ اس تحریک کے آغاز سے صرف ایک سال قبل 1980 میں فضل الرحمان اپنے والد اور جے یو آئی کے امیر مولانا مفتی محمود کے انتقال کے بعد جمیعت کے امیر بننے تھے ۔ انتقال کے وقت مفتی محمود صوبہ سرحد (اب کے پی) کے وزیراعلیٰ تھے۔ 1983 میں پہلی بات انہیں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
جے یو آئی کے ایک بزرگ رہنما کے مطابق ، مولانا سراج الدین پور کو مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد جے یوآئی کا امیر بنایا گیا تھا تاہم پارٹی کے معاملات اور ملکی سیاست پر ان کے سخت موقف کی وجہ سے ، جے یو آئی کی شوریٰ نے مولانا سراج الدین پوری کی جگہ 26 سالہ مفتی محمود کے فرزند فضل الرحمان کو بطور امیر مامزد کر دیا۔
اگر جے یو آئی (ف) جنرل ضیاء کی مجلس شوریٰ یا کابینہ میں شامل ہو جاتی تو مولانا کو بھی مارشل لا یا فوجی آمر جنرل ضیا کی پیداوار قرار دیا جاتا ، لیکن اپنے والد کے ضیاء حکومت میں شامل نہ ہونے کے فیصلے اور 90 دن میں انتخابات کروانے کے دعوے کی حمایت کی بدولت مولانا کو کبھی بھی آمر کی پیداوار ہونے کے لئے تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کے برعکس ان کا سیاسی کیریئر حزب اختلاف کے پلیٹ فارم سے شروع ہوتا ہے۔
جمیعت کے امیر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہیں پہلے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اس وقت کرنا پڑا جب جے یو آئی کو ایم آر ڈی میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ۔ مولانا کو یہ دعوت کراچی پریس کلب کے کانفرنس روم میں مرحوم بیگم نصرت بھٹو کی زیر صدارت منعقدہ پہلے اجلاس میں کی گئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر مولانا اس اتحاد میں شامل ہونے سے گریزاں تھے کیوں کہ ان کے والد بھٹو مخالف تھے اور جے یو آئی بھی پی این اے کا حصہ تھی ، جس نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی تھی۔
1988 کے انتخابات کے دوران "خاتون کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کرنے"کے سوال پر جے یوآئی اندرونی اختلافات کا شکار تھی جس کے باعث فضل الرحمان کو سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ، مولانا نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ مرحوم جنرل حمید گل کی بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لئے ، اسلامی جمہوری اتحاد آئی جے آئی ، میں شامل ہونے کی درخواست رد کردی، ایک عام تاثر یہ تھا کہ 88 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی واضح برتری سے جیتے گی ۔ مولانا نے حمیدگل کو بتایا کہ "ہم نے ابھی تک وزیر اعظم کی حیثیت سے بی بی کی حمایت کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے ، لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ وہ ایک مقبول پارٹی کی رہنما تھیں جو رائے شماری جیت سکتی ہیں۔ "
اپنی جماعت میں "عورت کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کروانے " کے لیے مولانا نے جے یو آئی کے اندر چالاکی سے اپوزیشن کا انتظام کیا ۔ پارٹی پر ان کی مستحکم گرفت کی وجہ سے جے یو آئی کی مرکزی شورہ نے متفقہ طور پر عورت کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا جسے پھر کبھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ مولانا کا 2007 میں بے نظیر کے قتل تک پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرنے کا رشتہ قائم رہا۔
بے نظیر بھٹو ہمیشہ مولانا اور ان کی سیاسی فکر کا احترام کرتی تھیں ۔ ان کی شہادت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے مولانا کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق قائم کر لیا جس سے بی بی کا قائم کیا ہوا یہ رشتہ مزید مستحکم ہو گیا اور جب آصف علی زرداری 2008 میں ملک کے صدر بننے تو انہوں نے اس رشتے کو مزید مستحکم کیا۔
مولانا نے اپنے والد مولانا مفتی محمود کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی ، اے این پی جیسی سیکولر جماعت کے ساتھ ہمیشہ کارآمد تعلقات رکھا ۔ 70 کی دہائی میں مفتی محمود کی سربراہی میں جے یوآئی کا اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بائیں بازو کی قومی عوامی پارٹی ، نیپ کے ساتھ اتحاد تھا۔
اور مولانا نے اس اتحاد کو قائم رکھنے کے ساتھ مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی معاملات میں اپنی گرفت برقرار رکھی اور جے یو آئی ف کا اس طرح کے اتحادوں میں ہمیشہ ہاتھ رہتا تھا ۔ اس میں سب سے نمایاں متحدہ مجلس عمل ، ایم ایم اے تھا ، جو افغانستان میں ہونے والی مریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کےرد عمل کے نتیجے میں سامنے آیا تھا ۔ جے یو آئی پر اس حملے کے بعد امریکہ مخالف بڑے مظاہروں کی قیادت کی اور جنرل پرویز مشرف کے اکتوبر 2001 میں بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت کے فیصلے کی بھی مخالفت کی۔
امریکا مخالف لہر کا اثر مشرف کے دور میں 2002 کے انتخابات پر بھی پڑا اور پہلی بار کسی بھی مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے اتنی نشستیں حاصل کر لیں۔ ایم ایم اے نے نہ صرف خیبرپختونخواہ میں حکومت قائم کر لی ، بلکہ کراچی میں ایم کیو ایم کو سات سیٹوں پر شکست دے کر حیرت میں ڈال دیا۔ مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور ان کے نامزد امیدوار اکرم درانی خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی بن گئے۔
ایم ایم اے کے دوسرے اہم جزو ، جماعت اسلامی کو کے پی حکومت میں تھوڑا سا حصہ ملا۔ لیکن جماعت اسلامی نے اس کی مضبوط خواتین ونگ کی وجہ سے زیادہ مخصوص نشستیں حاصل کیں کیوں کہ جے یو آئی کا کوئی خواتین ونگ نہیں تھا۔
پارلیمان کی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لئے جنرل مشرف نے ایم ایم اے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے ساتھ کر لیا ۔ اسلامی جمہوری اتحاد نے اس شرط پر پالیمان کو قانونی حیثیت ماننے پر اتفاق کیا کہ جنرل مشرف دسمبر 2004 میں آرمی چیف کے عہدے سے سبکدوشی ہوجائیں گے ۔ 2008 تک
جماعت اسلامی کے سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد نے ایک بار پارلیمانی سیاست کی بہتر تفہیم رکھنے پر مولانا اور جے یو آئی کی تعریف بھی کی۔
اس کے برعکس ایک اور سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا مولانا سے محبت اور نفرت کا رشتہ رہا اور قاضی حسین احمد کے برعکس منور حسن نے جے یوآئی سے بے زاری محسوس کی، جس کے نتیجہ میں 2008 میں ایم ایم اے کے زوال کا شکار ہوگئی ۔
لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ،مولانا فضل الرحمن ہر دور کے آدمی ہیں اور انہوں نے اب اپنے چیلنج سے وزیر اعظم عمران خان کو پریشان کرنے کے لئے سیاست کو 'یرغمال' بنا لیا ہے۔ مولانا نے گیند عمران کی جانب پھینک دی ہے اور اب ہم سب اس محاز آرائی کے حتمی نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ مولانا اور ان کا طرز سیاست ہے چاہے آپ ان سے متفق ہوں یا نہیں ۔