نئی پیش گوئیاں

فوٹو: فائل

محمد خان جونیجو اور میاں نواز شریف کو پہلی بار وزیراعظم بنایا جارہا تھا تو قربانی اُن کے لئے بھی دی گئی تھی لیکن صرف پیپلز پارٹی یا زیادہ سے زیادہ بائیں بازو کی سیاسی قوتوں کی تاہم عمران خان کی خاطر دی جانے والی قربانی بہت بڑی ہے۔

مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی تو ناراض تھی ہی اُن کی خاطر تاریخی طور پر حریف مذہبی جماعتوں کی دوستی بھی قربان ہوئی۔ حتیٰ کہ اس عمل میں مصطفیٰ کمال اور چوہدری نثار علی خان جیسے لوگ بھی قربانی کے بکرے بن گئے۔ عدلیہ کے ادارے کا تقدس اور میڈیا کی آزادی تک کو قربان کیا گیا۔ 

اس تناظر میں عمران خان پر تکیہ بھی بہت تھا اور ان سے توقعات بھی غیرمعمولی تھیں اور ہم جانتے ہیں کہ جتنی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، اتنی پورا نہ ہونے کی صورت میں مایوسی کا دکھ اور غصہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے معتوب بن جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اُن کو معیشت کی خرابی کا مجرم باور کرایا گیا تھا اور عمران خان سے جو اولین توقع لگائے بیٹھے تھے، وہ معیشت کی بحالی تھی۔

یہ سوچا گیا تھا کہ وہ ملک کے اندر بھی آمدنی بڑھا دیں گے اور باہر سے بھی اُن پر پیسوں کی بارش ہو جائے گی لیکن نتیجہ بالکل الٹ سامنے آیا۔ باہر سے پیسہ تو خاک آتا ملک سے دولت اور ذہانتیں دونوں ہجرت کرنے لگیں۔

ملک کے اندر معاشی سرگرمیاں یکدم رک گئیں اور ذمہ دار حلقوں میں یہ سوچ فروغ پانے لگی کہ معیشت کی اس حالت کے ساتھ ملکی سلامتی کو یقینی بنانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اداروں کی طرف سے جو سازگار ماحول عمران خان کو ملا، ماضی میں کسی وزیراعظم کو نہیں ملا۔ طاقتور اداروں نے جتنا ان کو اون(Own) کیا، ماضی میں کسی وزیراعظم کو نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اُن پر تنقید کو اپنے پر تنقید سمجھا گیا۔ عدلیہ بھی کسی مرحلے پر راہ میں مزاحم نہیں بنی۔

میڈیا نے مثبت رپورٹنگ کرتے ہوئے جو مثبت رویہ ان سے متعلق اپنایا، ماضی کی کسی جمہوری حکومت سے متعلق نہیں اپنایا تھا اور تو اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) جیسے حریف بھی ان کے لئے کسی اور جگہ سے ڈیل ہوتے رہے اور وہ اپوزیشن میں ہوکر بھی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں تھیں۔

یوں جتنا فرینڈلی ماحول عمران خان کو ملا، ماضی کے کسی وزیراعظم کو نہیں ملا تھا لیکن جس قدر جلد انہوں نے لوگوں کو مایوس کیا، اس کی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

عمران خان نے لوگوں کو باور کرایا تھا کہ اُن کی پارٹی نے ملکی مسائل کے حوالے سے بہت ہوم ورک کر رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دیانتدار اور ایکسپرٹ لوگوں کی ٹیم بھی تیار کی ہے لیکن اقتدار ملنے کے بعد پتا چلا کہ وہ سب دھوکہ تھا۔ کوئی ہوم ورک نہیں تھا اور اہل ترین لوگوں کی ٹیم ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں تھا۔

ان کے پاس اپنا وزیر خزانہ تک نہیں تھا۔ پنجاب جیسا صوبہ عثمان بزدار اور پختونخوا بزدار پلس (محمود خان ) کے حوالے کیا۔ جو چند ایک سنجیدہ لوگ تھے ان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اور اہم وزارتیں نا تجربہ کاروں کے حوالے کی گئیں چنانچہ ایک سال کے اندر نوبت یہاں تک آگئی کہ گزشتہ برسوں میں عمران خان کو مسیحا ثابت کرنے کے لئے صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے والے سیاسی نابغے بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے لگے۔

آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اس لئے ناپسندیدہ قرار پائے تھے کہ دو تین کاروباری مافیاز ان کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی تھیں لیکن موجودہ حکومت کے گرد مافیاز ہی مافیاز ہیں۔

غیرملکی شہریت کے حامل مشکوک افراد کو ایرانی، سعودی اور امریکی سربراہانِ حکومت کے ساتھ حساس معاملات کا رازدان بنایا جارہا ہے۔ اور تو اور اہم ترین قومی فیصلے بھی توہمات کی بنیاد پر ہونے لگے۔

اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ ایک اہم تقرری کے لئے ذہن بنانے کی خاطر ایک اہم گھر میں پتھروں پر مختلف نام لکھے گئے تھے اور کئی دنوں تک ایک خاص عمل اس لئے کیا جارہا تھا کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس حوالے سے کیا فیصلہ ہونا چاہئے۔

مذکورہ بالا تناظر میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ ملک کو اقتصادی تباہی سے بچانے کے لئے ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی خاطر ملک میں سیاسی مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے۔ اس پسِ منظر میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی وغیرہ کے ساتھ رابطے کئے گئے۔

مولانا کے دھرنوں اور میاں نواز شریف کی بیماری کی وجہ سے ان رابطوں میں مزید تیزی آئی لیکن عمران خان نے اعتماد سازی کی ان کوششوں کو اپنے خلاف سازش سے تعبیر کیا۔

اپنے انداز میں ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نہ نکالنا اس روش کی ایک نمایاں مثال تھی۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن کو چوہدری برادران اور دیگر بیک ڈور چینلز سے ایک طرح سے ڈیل کیا جارہا تھا لیکن وزیراعظم دوسری طرح ڈیل کررہے تھے۔

مولانا کے دھرنے کا معاملہ ہو یا میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا، دونوں میں وزیراعظم کے بیانیے کو شکست ہوئی جسے اب انہوں نے دل پر لے لیا ہے۔ چنانچہ دوسری طرف سے بھی ناراضی کا اظہار ہونے لگا ہے۔

مسلم لیگ(ن)، ایم کیو ایم اور اب پیرپگاڑا کی طرف سے عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مولانا پہلے سے زیادہ مطمئن ہیں کہ ان کی آرزو ایک دو ماہ تک پوری ہوجائے گی۔

چوہدری پرویز الٰہی ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ذریعے مولانا کو یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے تنقید کا رخ صرف اور صرف عمران خان کی طرف کردیا ہے۔

دونوں نئے انتخابات کے مطالبات اور پیش گوئیاں کرنے لگی ہیں۔ شہباز شریف کی طرف سے حکومتی اتحادیوں کے شکریے ادا کئے جارہے ہیں لیکن پھر بھی اقتدار کے نشے میں مست یا پھر اس سے مستفید ہونے والے خوش فہم یہ دہائی دے رہے ہیں کہ صفحہ بدستور ایک ہے۔

ان خوش فہموں کی نیندیں اڑ جائیں گی لیکن ذرا مارچ کا مہینہ تو آنے دو۔ تب ان کو پتا چل جائے گا کہ شہباز شریف نے کیا سیاست دکھائی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن طعنے برداشت کرکے کیوں اسلام آباد سے بظاہر خالی ہاتھ واپس لوٹے ہیں۔

مزید خبریں :