02 دسمبر ، 2019
تبدیلی سرکار نے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے نہ صرف پنجاب کے آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری کو تبدیل کردیا ہے بلکہ 19محکموںکے سیکریٹری، 31اضلاع کے ڈی سی سیکریٹر، 20سے زائد ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی جبکہ پانچ اضلاع کے کمشنرز بدل دیئے ہیں۔
اسی طرح کئی اضلاع کے ڈی پی او بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ ناقدین کہہ رہے ہیں کہ ایک سال کے مختصر عرصہ میں پانچواں آئی جی تعینات ہونا لااُبالی اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کا مظہر ہے مگر مجھے اس تاثر سے ہرگز اتفاق نہیں۔
نجانے کیوں لوگ تقرریوں، تعیناتیوں اور تبادلوں کے بعد آسمان سر پہ اُٹھالیتے ہیں اور یہ بنیادی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حکومت کا بنیادی فلسفہ ہی تبدیلی سے عبارت ہو، جو اس نظام کو بیخ وبن سے اُکھاڑنے اور نیا پنجاب بنانے کے لئے کوشاں ہو، وہ کسی بھی عہدے پر تعینات شخص کو پرانا کیوں ہونے دے ؟
اس ردوبدل کا مقصد ہی یہی ہے کہ جو نقش کہن نظر آئے، مٹا دیا جائے۔ جو راستے کا پتھر بن جائے، ہٹا دیا جائے تاکہ لوگ بوریت کا شکار نہ ہو ں۔ چنانچہ بار بار تبدیلی کی تکرار پہ تو مجھے ہرگز تعجب نہیں البتہ یہ حقیقت ضرور پریشان کن ہے کہ ’’پرانے پنجاب‘‘میں کلیدی عہدوں پر تعینات سول سرونٹس کو چن کر کھڈے لائن لگانے والی تبدیلی سرکار اب ا نہیں ڈھونڈ کر واپس لا رہی ہے۔
آپ پنجاب کے 36اضلاع میں تعینات ڈی پی اوز، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی فہرست بنائیں، معمولی فرق کیساتھ وہی افسر دکھائی دیں گے جو چند برس قبل ’’پرانے پنجاب ‘‘کا نظام چلا رہے تھے۔ مثال کے طور پر نسیم صادق جنہوں نے ڈی سی اوکے طور پر کئی اضلاع میں گڈ گورننس کی مثالیں قائم کیں اور پھر گزشتہ دورِ حکومت میں سیکریٹری لائیو اسٹاک رہے، انہیں تقرریوں کی حالیہ لہر کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب کے آبائی ضلع ڈی جی خان میں کمشنر لگایا گیا ہے۔
یہ وہی نسیم صادق ہیں جنہیں تبدیلی سرکار نے آتے ہی اوایس ڈی بنادیا تھامگر بعدازاں ان کی صلاحیتوں کا اِدراک ہوا تو سیکریٹری فوڈ بنادیا گیا۔ افتخار علی سہو کا شمار بھی سابقہ حکومت کے منظور نظر افراد میں ہوتا تھا کیونکہ وہ سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ جیسے اہم عہدے پر تعینات رہے، تبدیلی سرکار نے آتے ہی ان کی خدمات سندھ حکومت کے سپرد کردیں مگر اب انہیں سیکریٹری ٹو سی ایم لگا دیا گیا ہے۔
کیپٹن (ر)سیف انجم بھی زیر عتاب رہے، انہیں ستمبر 2018ء کو فارغ کرکے ان کی خدمات بلوچستان حکومت کے حوالے کر دی گئی تھیں مگر جلد ہی یوٹرن لیکر واپس لایا گیا اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ بنایا گیا،مگر اب انہیں کمشنر لاہور تعینات کردیا گیا ہے۔
اس طرح کی اور بھی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں اور سب سے بڑی مثال خود چیف سیکریٹری میجر (ر)اعظم سلیمان ہیں۔ اعظم سلیمان سابق وزیراعلیٰ کی آنکھ کا تارا ہوا کرتے تھے۔
جب ماڈل ٹائون کا سانحہ ہوا تو میجر (ر)اعظم سلیمان سیکریٹری داخلہ تھے۔ پنجاب میں بطور سیکریٹری ایریگیشن اور سیکریٹری کمیونیکیشن بھی کام کیا، جب ان کی ترقی ہو گئی تو انہیں پنجاب میں ہی رکھنے کے لئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور اب وہ پنجاب میں افسر شاہی کے بے تاج بادشاہ ہیں۔
خبر تو یہ بھی ہے کہ فواد حسن فواد کی بھی سنی گئی ہے اور انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ان معلومات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ موجودہ حکومت نے متذکرہ بالا افسروں کو تعینات کرکے کوئی غلطی کی ہے۔ یہ سب پاکستان سول سروس کے لوگ ہیں اور انہیں کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت سے جوڑنا سب سے بڑی زیادتی ہے۔
ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ کوئی سول سرونٹ متحرک اور فعال ہو تو اس پرمخصوص چھاپ لگ جاتی ہے اور پھر اگلی حکومت ایسے افسروں پر اعتماد کرنے سے گریز کرتی ہے۔
حالانکہ کوئی سرکاری افسر کسی کا آدمی نہیں ہوتا۔ سیف سٹی منصوبہ ایک عرصہ سے التوا کا شکار تھا مگر نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ پولیس افسر اکبر ناصر خان نے اس چیلنج کو قبول کیا اور آج اس منصوبے کی وجہ سے لاہور میں نہ صرف جرائم کی شرح کم ہوئی ہے بلکہ ملزموں کی گرفتاری اور تفتیش میں بھی مدد مل رہی ہے۔
اس منصوبے کا ٹھیکہ ایک دوست ملک کی کمپنی کو دینے کےلئے بہت دبائو تھا لیکن چیف آپریٹنگ افسر نے انکار کردیا۔ عدالت نے بھی انہیں تبدیل کرنے سے منع کیا تھا لیکن اب انہیں آئی جی آفس رپورٹ کرنے کو کہا گیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ اس بار لائے گئے چیف سیکریٹری کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں اور انہیں بتا دیا گیا کہ صوبہ آپ نے چلانا ہے۔ خدا کرے، صورتحال بہتر ہو مگر اس تبدیلی کے ہنگام میں مجھے چراغ حسن حسرت سے منسوب ایک واقعہ یاد آتا ہے۔
انہیں بتایا گیا کہ اخبار کا چیف نیوز ایڈیٹر، چیف رپورٹر، میگزین ایڈیٹر، مارکیٹنگ اسٹاف، یہاں تک ہیلپر تبدیل کرکے دیکھ لئے مگر ادارہ بدستور خسارے میں ہے، انہوں نے روایتی بذلہ سنجی سے کام لیتے ہوئے کہا، ایک بار ایڈیٹر بھی بدل کر دیکھ لیں۔