ریاست مدینہ میں طلبا و معلم کےحقوق کہاں؟

 نوجوان نسل کےآزادی اظہار اور حقوق کی پاسداری کے لئے متفقہ قانون سازی کرکے طلبا تنظیموں کو فوری بحال کرنا ہوگا— سوشل میڈیا فوٹو

وہ چالیس سال سے ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں گریڈ چہارم کا ملازم ہے۔ معمولی تنخواہ میں بیوی 2بیٹیوں اور 2بیٹوں کو پال پوس کر بڑا کیا، والدین کی خدمت کی اور صبر و شکر کیا۔

بچوں کو بنیادی تعلیم کے بعد یونیورسٹیوں میں پڑھانے کی خواہش میں عمر ریٹائرمنٹ کو پہنچ گئی ہے۔ زندگی کی 60بہاریں دیکھنے والے احمد چاچا کو آگے خزاں نظر آرہی ہے۔

بھرائی آواز میں بولے، زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کروں، بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواؤں یا بچوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر کروں پہلے تنخواہ 25سے 30ہزار تھی، آج 40ہزار ہے، دس سال پہلے اخراجات کھینچ تان کر پورے ہو جاتے تھے لیکن گزشتہ ایک سال سے ہرماہ دس، بیس ہزار ادھار اٹھا کر بھی گزارا نہیں ہو رہا۔

اب تو کینسر زدہ بیوی کے علاج معالجے کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ سوچتا ہوں مانگ تانگ کر اگر ایک دو بچوں کو یونیورسٹی پڑھا بھی لیا تو کل یہ ڈگری ہاتھ میں لئے نوکری کے لیے در در ٹھوکریں کھائیں گے۔

ان آنکھوں نے پہلے ہی کسی خواب کی تعبیر نہیں پائی تو پھر اگلا دکھ برداشت کرنے کی سکت بھی نہیں ہوگی۔ زندگی عجیب دوراہے پر آکھڑی ہے، پہلے ہی محض ایک سال میں دس لاکھ افراد روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، سرکار محکمے بند کررہی ہے، نجی شعبہ مکمل بدحالی اور تباہی کے دہانے پر ہے۔

نئے پاکستان میں یہ کیسی تبدیلی آئی ہے کہ معیشت سنبھل نہیں رہی، ہرشخص سخت ٹینشن میں ہےلیکن کوئی پرسان حال نہیں۔

چھ افراد کے کنبے کا سربراہ اپنی کہانی سنا رہا تھا اور میرا دماغ پریشانی سے گھوم رہا تھا، اس شخص کے درد کو محسوس کر سکتا تھا کیونکہ بظاہر اب یہ ہر گھر کی کہانی لگتی ہے۔

صنعتکار، تاجر نوکری پیشہ، چھابڑی والا، طالب علم اور استاد سمیت ہر شخص “تبدیلی“ سےبراہِ راست متاثر ہوا ہے۔ عمر یا عہدہ کے لحاظ سے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کی زندگی میں بےچینی اور کشمکش میں اضافہ ہو چکا ہے، زیادہ تر مہنگائی کے ہاتھوں کمر تڑوانے کے بعد سہارے تلاش کر رہے ہیں۔

کہیں ڈاکٹر یا انجینئر سراپا احتجاج ہیں، تو کہیں دکاندار یا نوکری پیشہ سڑک پر مطالبات کے کتبے اٹھائے کھڑا ہے،یہی نہیں قوم کا مستقبل طالب علم اور اس کا معمار یعنی استاد بھی بے یار  و مددگار اور غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھ کر چوک چوراہوں پر بے توقیر ہو رہا ہے۔

ریاستِ مدینہ کا نام استعمال کرنے والوں نے ہر شخص کو چھت اور روزگار دینے کا وعدہ کیا لیکن شاید جو کچھ غریب و متوسط طبقے کے پاس تھا وہ بھی چھین لیا؟ بنیادی ریاستی ذمہ داریوں کی بات کی جائے تو صرف صحت اور تعلیم کے شعبے کے بجٹ کو چار، چار فیصد کرنے کا دعویٰ ایک سے ڈیڑھ فیصد پر آگرا ہے۔ یونیورسٹی اور کالجز کی فیسیز کئی گنا بڑھا دی گئیں، اندرونی اور بیرونی ملک اسکالر شپ تقریباً ختم کر دیئے گئے جبکہ سرکاری کالجز اور یونیورسٹیوں کےمستقل و عارضی اساتذہ کی تن خواہ کم اور دیگر مراعات کو ختم کیا جا رہا ہے۔

نتیجتاً طالبعلم اور معلم تعلیمی اداروں میں تعلیم وتدریس کے بجائے سڑکوں پر اپنے حقوق، آزادی اور تحفظ کے لئے احتجاج پر مجبور ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں سیاست پر قدغن ،نئی سوچ پر پہرے اور نئی لیڈرشپ ابھرنے پر روک لگانے کے لئے 80کے ضیائی مارشل لائی دور کے احکامات بدترین جبر واستداد کا عملی نمونہ ثابت ہوئے جنہیں آج 2019کے منتخب جمہوری ادوار بھی ختم نہیں کر سکے۔ 

طاقتور، زمین دار، صنعتکار اور غیر متعلقہ عناصر نے اپنے مقاصد اور اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کی خاطر طلبہ تنظیموں اور یونینز کو بحال نہ کیاجس سےگروہی اور مزاحمتی سیاست نے جنم لیا اور سیاسی ترقی کا سفر بند گلی میں چلا گیا۔

 دنیا کے عظیم سیاسی مفکروں، درسگاہوں، معلموں اور طلبہ کی مثالیں دینے والا آج مقتدر ہونے کے باوجود اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کرتاہے، وہ روز دیکھ رہا ہے کہ اس کے دور اقتدار میں معزز اساتذہ کرام اور روشن مستقبل کی واحد سبیل قابل طلبا کلاس رومز کی بجائے سڑکوں پر اپنے حقوق مانگنے پر مجبور ہیں مگر انہیں حق دینے کے بجائے ستم کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

وہ چاہے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اساتذہ جو تدریسی عمل کاحرج کئے بغیر سڑک کنارے بیٹھ کر اپنے جائز مطالبات کےحق کی آواز بلند کرنے والے اساتذہ ہوں یا ملک بھر کی جامعات کے مجبور و محصور طلباء جو اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ، فیسز میں اضافہ روکنے اور طلبہ یونینز کی بحالی کے لئے پرامن جدوجہد کر رہے ہوں ان سب کے خلاف مقدمات بناکر گرفتاریوں کا شرمناک و نقصان دہ عمل دہرایا جا رہا ہے۔

جمہوریت کے دعویدار حکمران بھول چکےکہ حقیقی مدینہ کی ریاست میں تمام انسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا تھا ہر کوئی برابر تھا کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں تھی ،کسی مالدار کو متوسط یا غریب پر اجارہ داری کا حق حاصل نہیں تھا ۔طالب علمو ں پرمعلم کی تقدیس فرض تھا، سب کی مذہبی اور شخصی آزادیاں مقدم اور محفوظ تھیں۔

بلاشبہ نئے پاکستان کی اپنی ہوشربا مصروفیات میں پھنسے والی ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ طلباء واساتذہ حساس ہوتے ہیں۔ملک کی طاقت 60فیصد نوجوان طبقہ آپ کی طرف دیکھ رہا ہے طلبا کامقام اور مقدر سڑکیں نہیں بلکہ جامعات ہیں، سوشلزم، لبرل ازم، کیمونزم اور مذہب کی آڑ میں ایکسٹریم ازم پھیلانے کی خالق طاقتیں ہروقت شکار کی تلاش میں ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں محتاط رہتے ہوئےاپنی نوجوان نسل کےآزادی اظہار اور حقوق کی پاسداری کے لئے متفقہ قانون سازی کرکے طلبا تنظیموں کو فوری بحال کرنا ہوگا۔

اساتذہ کرام کی عزت، ناموس اور توقیر پر سوالیہ نشان معاشرے کی تباہی کے مترادف ہے، اساتذہ کو عالمی معیار کےمطابق معاوضے و سہولتوں کی فراہمی اور موثر تعلیمی خدمات کے لیے جدید تربیتی پروگرام جلد شروع کرنا ہوں گے۔

اردو، انگریزی اور مدارس کےالگ الگ نصابوں میں بٹےنظام کو یکساں بنانا ہوگا۔ تساہل، غیر ذمہ داری اور تغافل کےسبب تاخیر موجودہ اور آئندہ نسل کی تباہی کاسبب بنے گا جس کی ساری ذمہ داری آپ کے سر ہوگی!

مزید خبریں :