پاکستان
Time 13 دسمبر ، 2019

سانحہ پی آئی سی اور بے بس انتظامیہ

سانحہ پی آئی سی اور بے بس انتظامیہ—فوٹو اے ایف پی

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی تاریخ میں پہلے بھی ہنگامے، تشدد اور قتل و غارت ہوتی رہی لیکن وکلا جیسی پڑھی لکھی کمیونٹی کی طرف سے بدھ کے روز پورے صوبے کے غریب عوام کیلئے امید کی بڑی کرن پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گھس کر توڑ  پھوڑ اور غیر انسانی سلوک کی معاشرے کے ہر طبقے نے مذمت کی ہے۔ 

وکلا نے جو کیا، وہ حالت جنگ میں بھی نہیں ہوتا لیکن اس کیساتھ ساتھ پنجاب کی انتظامیہ بھی معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں مکمل ناکام نظر آئی۔ محکمہ داخلہ اور پولیس کے درمیان رابطوں اور تعاون کے فقدان سمیت بروقت اقدام نہ کرنے کی وجہ سے اتنا بڑا واقعہ پیش آیا جس کا کسی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

 پنجاب کی انتظامیہ نے کچھ انتہائی اہم ایس او پیز کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے سیکیورٹی کے حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ سانحہ پی آئی سی سے ایک روز قبل اسپیشل برانچ کی رپورٹ کے باوجود کہ وکلا ایک بڑا احتجاج کرنے جا رہے ہیں جو پرُتشدد بھی ہو سکتا ہے، کیبنٹ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر کی میٹنگ کال نہیں کی گئی۔ وکلا کے احتجاج کی گہرائی کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ وکلا شہر کے مختلف چوراہوں سے گزر کر پی آئی سی پہنچے۔ ہر چوک میں ٹریفک پولیس والا کھڑا ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں وائرلیس سیٹ ہوتا ہے۔ معاملے کی نوعیت اور سنگینی کے باوجود پی آئی سی کی طرف بڑھنے والے 500سے زائد وکلا کے MOBکو روکنے کیلئے صرف 25سے 30اہلکار موجود تھے۔

 ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کے پاس تمام رپورٹس تھیں تو انہوں نے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہنگامی رابطے کیوں نہ کئے۔ چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان جو سانحہ ماڈل ٹائون کے وقت ہوم سیکرٹری تھے اور ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے افسر سمجھے جاتے ہیں، بھی صورتحال کی سنگینی کا ادراک کیوں نہ کر سکے؟ وکلا کو ایوانِ عدل سے نکل کر اکٹھے ہوکر پی آئی سی پہنچنے میں کم و بیش ایک گھنٹے سے زائد وقت لگا تو اس دوران پولیس کی نفری پی آئی سی کیوں نہ بھجوائی گئی؟ کروڑوں روپے کی مالیت سے خریدی گئی واٹر کینن کیا بارش برسانے کیلئے خریدی گئی تھیں؟ لاہور پولیس کے پاس گھڑ سوار (مائونٹیڈ پولیس) بھی ہے جو انگریز کے وقت احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کیلئے استعمال کی جاتی تھی، اسے کیوں نہ بلوایا گیا؟ 

اگر پولیس ڈاؤن پلے کر رہی تھی کہ اتنی خطرے کی بات نہیں، تو ہوم سیکرٹری مومن علی آغا نے پولیس کو SENSITISE کیوں نہ کیا؟ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سویلین حکومت میں آئی جی پولیس کے دفتر کی حفاظت کیلئے رینجرز منگوائی گئی اور جس کا پورے معاشرے میں تمسخر اڑایا گیا، کیا یہ کسی تذلیل سے کم ہے؟ 

لاہور پولیس کی نفری 30ہزار سے زائد ہے، کیا وہ 500وکلا کے MOBکو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ وکلا کے احتجاج اور پی آئی سی پر حملے نے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ان کی مرضی سے چنے گئے افسران کی اہلیت پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ 

پنجاب میں کیبنٹ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر جو صرف ایسے سنگین حالات میں اہم فیصلوں کیلئے بنائی گئی ہے، بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ کے موقع پر صوبائی کیبنٹ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر کے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی، چیف سیکرٹری پنجاب اور ہوم سیکرٹری کی موجودگی میں 50سے زائد اجلاس ہوئے تو اس غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک بھی اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟ محکمہ داخلہ میں ہر وقت بریفنگز کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن حیرت کی بات ہے سیکیورٹی اداروں کی طرف سے صورتحال کی سنگینی کے واضح اشاروں کے باوجود ایمرجنسی بریفنگ کیوں نہیں دی گئی۔

 انگریز نے اپنے دور میں میٹنگز کے دوران چیف سیکرٹری کے ساتھ ہوم سیکرٹری کی کرسی صرف اس لئے رکھی تھی کہ اس کی چیف سیکرٹری تک حساس نوعیت کے معاملات میں فوری رسائی ہو۔ گزشتہ روز کے واقعہ میں آئیڈیل کوآرڈی نیشن نظر نہیں آیا۔ اب یہ سننے میں آ رہا ہے کہ تاحال 140وکلا گرفتار کئے گئے ہیں جن کے خلاف 16اور 3ایم پی او کے تحت کارروائی کرکے انہیں 90دن تک زیر حراست رکھنے کا پلان زیر غور ہے۔ 16ایم پی او کے تحت زیر حراست رکھنے کا اختیار محکمہ داخلہ کا ہوتا ہے، جو اس میں 6ماہ تک کی توسیع کر سکتا ہے جبکہ 3ای پی او کے تحت کی جانے والی نظر بندی کو کوئی عدالت ختم نہیں کر سکتی۔ 

حکومت پنجاب اپنی رٹ منوانے کے لئے اب ہنگامی اجلاس اور فیصلے کر رہی ہے جو اس واقعہ کے پیش آنے سے قبل کرنا چاہیے تھے۔ چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان کو اس واقعہ کے بعد فورسز کے درمیان کوآرڈی نیشن کو مزید بہتر بنانا پڑے گا کیونکہ اب صوبے کے تمام مسائل اور ان کے حل کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے اور وہی اس حوالے سے وزیراعظم کو براہ راست جوابدہ ہیں۔ 

پنجاب کی سول بیورو کریسی کے ہیڈ کوارٹر سول سیکرٹریٹ کی حفاظت کیلئے بھی پولیس کی مطلوبہ نفری موجود نہ تھی۔ پنجاب حکومت نے میگافون پر تمام سیکرٹریٹ ملازمین کو باہر نکل کر وکلا کو سیکرٹریٹ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے باقاعدہ اعلان کروایا جو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ یہ بھی کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

مزید خبریں :