16 دسمبر ، 2019
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان مختلف آپشنز پر غور کررہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنی ہے یا قانون سازی؟ اس حوالے سے حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان مختلف آپشنز پر غور کررہے ہیں اور حتمی فیصلہ وہی کریں گے۔
ماہر قانون بابر ستار کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کےلیے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں، حکومت نے خود عدالت میں یقین دہانی کرائی تھی کہ 6 ماہ میں قانون سازی کرلی جائے گی اس لیے اب نظر ثانی میں جانے کا جواز نہیں رہتا۔
ماہر قانون فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پارلیمنٹ چاہے تو قانون سازی کرسکتی ہے اور چاہے تو نہیں بھی کرے۔
انہوں نے کہا کہ 1973 کے آئین اور بعد میں اٹھارویں ترمیم میں ایکسٹینشن کے معاملے کو وزیراعظم کی صوابدید پر چھوڑا گیا جو سویلین بالادستی کے لیے ضروری ہے۔
تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی قومی مفاد کی قانون سازی ہے، سیکیورٹی معاملات سے جڑی ہے، تمام قانون سازوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا کردار ادا کریں۔
فیصل جاوید نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی میں مشکل پیش نہیں آئے گی، بہت آسانی سے قانون سازی ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بھی ہوجائے گا اور دو تہائی اکثریت کی طرف معاملہ گیا تو وہاں بھی ہوجائے گا، یہ انتہائی قومی مفاد کا معاملہ ہے، اس میں سیاسی معاملات نہیں آئيں گے۔
خیال رہے کہ 28 نومبر 2019 کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو 6 ماہ میں قانون سازی کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دی تھی۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آج تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا جو 39 صفحات پر مشتمل ہے جسے 3 رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر چھ ماہ میں قانون نہ بن سکا توآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2019 سے ریٹائر تصور ہوں گے جس کے بعد صدر پاکستان وزیراعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کا بطورآرمی چیف تقرر کریں گے۔