22 دسمبر ، 2019
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، معجزات کی بھرمار مسلسل دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اول تو پہلے دن کسی بھی سیاسی جماعت کو یقین ہی نہیں آیا کہ اچانک راتوں رات کیسے اتنے امیدوار کامیاب ہوئے، کسی نے کچھ کہا اور آخر میں بلاول بھٹو سے نہیں رہا گیا تو انہوں نے سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ کر قومی اسمبلی میں خطاب کیا۔
بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ پی پی پی کی تاریخ میں کراچی کی لیاری کی سیٹ سے جہاں معمولی کارکن بھی نہیں ہارے مگر پی پی پی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو پہلی مرتبہ ہار گئے۔
پھر دوسرا معجزہ ڈیرہ اسماعیل خان، جہاں مرحوم بھٹو بھی جے یو آئی کو نہیں ہرا سکے، پھر مولانا فضل الرحمٰن پہلی مرتبہ کیسے ہارے۔ پشاور سے اسفند یار ولی کیسے ہارے، یہ تیسرا معجزہ تھا۔ بلوچستان سے محمود خان اچکزئی کیسے ہارے۔ ایم کیو ایم کرا چی اور حیدر آباد سے 75فیصد سیٹیں ہار گئی، پھر PSPجو ایم کیو ایم کو ہرانے کے لئے وجود میں لائی گئی تھی، ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکی۔
پھر یہ معجزہ کم تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے دھرنوں میں کئے گئے تمام وعدے یوٹرن کی نذر ہونے لگے۔ خصوصاً آئی ایم ایف سے قرضے کی درخواست نے عوام کو سخت مایوس ہی نہیں کیا بلکہ تبدیلی کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔
رہی سہی کسر ایف بی آر نے تاجروں، صنعتکاروں سے دو دو ہاتھ کرکے پوری کی اور صرف ڈیڑھ سال میں معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا۔ مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، بیروزگاری اور لاقانونیت نے دوبارہ سر اٹھا لیا، سب سے بڑا معجزہ تمام بڑے سیاسی رہنمائوں کو نیب نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔
پھرقوم نے دیکھا ایک ایک کر کے سب کے سب چھوٹ گئے اور ایک ٹکا بھی وصول نہیں ہو سکا۔ مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت لندن میں مزے کر رہی ہے۔ کہاں تو پلیٹ لیٹس اتنے گرا دیے تھے کہ وہ اب چلے کہ جب چلے، مگر واہ رے لندن تیری سرزمین کی شان ہی نرالی ہے۔
جو بیمار پاکستان سے گیا صرف 6سات گھنٹوں کی مسافت کے بعد جہاز سے دوڑ کر اترا اور سیدھا اپنے محل میں۔ جن کو پاکستان میں ان کے فیملی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، لندن کی آب و ہوا میں اترتے ہی اللہ نے معجزہ دکھا کر تندرست و توانا کر دیا۔
جب تک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار چھاپے مارتے رہے، شراب کی بوتل سے شہد برآمد ہوتا رہا۔ 2000ارب کی زمین صرف 480ارب میں واگزار ہو گئی۔ وہ بھی معمولی سود اور قسطوں میں ادائیگی کے نام پر واپس کر دی گئی۔ اس کے خریدار رُل گئے۔ ان کی داد رسی کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔
کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں 400روپے کلو ٹماٹر اور سبزیاں، پھل، دودھ اور کھانے پینے کی اشیا یا تو ناپید ہیں یا منہ مانگے داموں پر بیچی جا رہی ہیں۔ انتظامیہ خود ان سے ملی ہوئی ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے علم میں لائے بغیر آئی ایم ایف کے کارندوں نے راتوں رات 115روپے کا ڈالر 155روپے کرکے اپنا لوہا منوا لیا۔ وزیراعظم نہ گھبرانے کا دلا سا دے رہے ہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ 3سال کی مدت ملازمت کی تو سیع چیف آف آرمی اسٹاف کی 6ماہ میں تبدیل ہو گئی۔
اربوں روپے کے ڈیم فنڈز کہاں گئے، کسی کو بھی نہیں معلوم۔ برطانیہ کی حکومت نے اربوں حکومت پاکستان کو واپس کر دیے، کہاں اور کس کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے، اربوں ڈالرز کی پوری دنیا سے رقمیں، جائیدادوں کی مد میں وصول ہوئیں کوئی حساب کتاب نہیں ملتا۔
ابھی یہ معجزات جاری تھے کہ کالے اور سفید کوٹوں کی لڑائی بھی ایک معجزہ سے کم نہیں۔ یہ اب کہاں تک پھیلے گی کسی کو نہیں معلوم کہ اس جنگ پلاسی کا کیا انجام ہوگا۔ قوم کو اور کتنے صدمے پہنچنا باقی ہیں۔ قوم نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد پر یلغار کر کے سولو فلائٹ کا کارنامہ انجام دیا اور جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت رہا ہو کر لندن پہنچ گئی تو اب مولانا صاحب آرام فرما رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان صبح شام ہنگامی دوروں پر مسلسل آ جا رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال کی کارکردگی پر اب تو ہر کوئی ہنس رہا ہے۔ رہی سہی کسر پرویز مشرف کو پھانسی کے فیصلے نے پوری کر دی جس پر بھارت میں جشن کا سماں ہے۔ وہاں کی مصیبتیں، کشمیر اور شہریت بل کو بھول کر لوگ پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
عمران خان کے ہاتھوں سے بطور وزیراعظم وقت ریت کی طرح پھسل رہا ہے۔ بدانتظامی، سسٹم کی عدم فعالیت سمیت کسی منظم حکمت عملی اور جامع پالیسی کے بغیر محض دعوئوں اور وعدوں سے نظام حکومت چلانے کا ہنر عوامی ترقی اور کامیابی کی ہمت پر آسیب کی طرح منڈلا رہا ہے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک کی رپورٹ معاشی حالات کا پردہ چاک کر رہی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول اور ٹیکس بڑھانے کے باوجود ٹیکس وصولی کی شرح گر چکی ہے۔
2018میں غیر ملکی سرمایہ کاری 5ہزار 7سو ملین ڈالرز سے آدھی ہوکر تقریباً ڈھائی سو ملین رہ گئی ہے۔ بجٹ خسارہ 8.9فیصد ہے جو 2018میں 6.6فیصد تھا۔ تجارتی خسارہ اور امپورٹس کم ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ایکسپورٹ بھی نہیں بڑ ھ رہیں۔ موجودہ بحرانی کیفیت میں تبدیلی سرکار کا بڑا امتحان قانونی و آئینی محاذ پر بھی ہے۔
الغرض جو کچھ آج تک نہیں ہوا وہ سب ہو رہا ہے۔ آج عمران خان نے ایم کیو ایم سے اور مسلم لیگ (ق) سے اتحاد کر کے حکومت بنائی ہے اور وزیر قانون کا عہدہ ایم کیو ایم کو اور پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو اسپیکر بنا دیا ہے۔ اگر ا ن کے ہوتے ہوئے عمران خان 5سال پورے کر گئے تو یہ ایک اور معجزہ ہوگا۔ واقعی تبدیلی اسی کا نام ہے۔