Time 03 جنوری ، 2020
پاکستان

2019ء مشرف ہیرو یا ولن؟

فوٹو: فائل

2019کا سورج جمہوریت اور سیاست کے پلیٹ لیٹس کی خطرناک حد تک کمی پر غروب ہوا، ویسے تو یہ کبھی نارمل نہیں رہے یا یوں کہیں نہیں رہنے دیے گئے مگر کچھ حالیہ عدالتی فیصلوں سے تو ہلچل سی مچ گئی۔

 وزیراعظم عمران خان نے درست کہا کہ سب اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا، اب ان حدود کا تعین کون کرے گا؟ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا مقدمہ بھی تو حدود سے تجاوز کرنے کا ہے، آرٹیکل 6 یہی تو ہے، 3 نومبر 2007کو یہی تو ہوا تھا۔

رہی بات فیصلے میں شامل تین میں سے ایک جج کی رائے کی، تو اس سے ہمارے معاشرے میں موجود انتہا پسند سوچ کی عکاسی ہوتی ہے جس کا فائدہ بہرحال ’’مجرم‘‘ کو ہی جاتا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ان کیلئے ہمدردی کی لہر بنی بلکہ اس رائے کے حق میں کوئی دلیل بھی نہیں دی گئی، نہ بنتی ہے، یہ تو بغض نظر آتا ہے۔

جناب جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ بھی اہمیت کا حامل ہے، انہوں نے پرویز مشرف کو بری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سنگین غداری کا مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے۔

قانونی لحاظ سے اپیل میں یہ بحث ضرور ہوگی البتہ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان جج صاحب سے میرا تعلق زمانہ طالبعلمی سے ہے اور ان کی رائے عام طور پر مختلف رہتی ہے مگر وہ بات ہمیشہ دلیل سے کرتے ہیں۔

رہی بات مشرف صاحب کی تو اللہ ان کو صحت دے مگر نہ 12 اکتوبر 1999آئینی تھا نہ 3 نومبر 2007، نہ 2001کے ریفرنڈم کا جواز تھا نہ ہی 2002کے انتخابات منصفانہ تھے۔

کاش! وہ اپنے ان دوستوں کا مشورہ ہی مان لیتے جو کہتے رہے انتخابات کرا کر واپس اپنا پیشہ ورانہ کام کریں مگر کیا کریں اقتدار کا نشہ چیز ہی ایسی ہوتی ہے، کوئی چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتا، وہ بھی نہیں جنہیں اس منصب پر رہنے کا نہ قانونی نہ آئینی حق حاصل ہے۔

عدالتی فیصلے میں کیا غلط لکھا ہے کہ اگر ملک میں نظریہ ضرورت نہ لایا جاتا تو شاید آرٹیکل6 کی ضرورت ہی نہ پڑتی، بدقسمتی سے آمریت کو خاص طور پر ایسی عدلیہ کی ضرورت رہتی ہے جو PCOجیسے کالے قانون کے ماتحت ہو۔

مشرف صاحب تو دو مرتبہ پی سی او لے کر آئے کیونکہ دوبارہ صدر جو رہنا تھا مگر جب 2008میں استعفیٰ دیا تو آواز اور جذبات ایک شکست خوردہ صدر کے نظر آرہے تھے۔

2008 میں جب وہ رخصت ہوئے تو عزت و احترام کے ساتھ! اب NROکا نتیجہ تھا یا کچھ اور یا یوں کہہ لیں کہ جمہوری حکومتیں بہرحال ان چیزوں کا خیال رکھتی ہیں۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے 10سالہ اقتدار کو تاریخ کیسے دیکھے گی مگر خود ان کے اپنے ساتھی اور وہ بھی فوجی کس طرح دیکھتے ہیں، اس کا اندازہ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب اور جنرل محمود، جنرل عزیز اور جنرل عثمانی کی مسلسل خاموشی سے لگایا جا سکتا ہے۔

ان کے شروع کے 10 پرانے ساتھیوں نے تو دورانِ اقتدار ایک مشترکہ بیان میں انہیں مشورہ بھی دیا تھا کہ چونکہ آپ اپنے اصل مشن سے ہٹ گئے ہیں لہٰذا اب ہم آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے۔

شاید جنرل ایوب خان کی طرح جنرل مشرف نے بھی بہت سے اچھے کام کیے ہوں مگر کوئی میرے گھر پر زبردستی قبضہ کرکے اس میں رہنا شروع کر دے، اسے بہتر کر دے اورجب میں یہ کہوں کہ جناب! یہ میرا گھر ہے، آپ اسے خالی کریں تو جواب آئے ’’نہیں!‘‘ تو کیا کوئی باوقار شخص یہ برداشت کرے گا؟

آپ کو غلط طریقے سے ہی سہی مگر برطرف تو قانونی اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے کیا گیا تھا، جواب میں ایک منتخب وزیراعظم اور ان کی حکومت کو ’’گن پوائنٹ‘‘ پر نہ صرف نکال باہر کیا گیا بلکہ سزا کے طور پر عمر قید کی سزا بھی ہوئی، بس وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی نہیں چڑھے۔

اگر ایک مختصر جائزہ لیں تو پاکستان کی سویلین قیادت نے کبھی بھی فوجی قیادت کے وقار کو نیچے نہیں ہونے دیا، مشرف صاحب پر بڑے الزامات تھے۔ خود موجودہ وزیراعظم ان کو 2001کے بعد دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے رہے ہیں، پھر بھی وہ بغیر کسی احتسابی عمل کے باہر چلے گئے تھے۔ پھر انہیں خود ہی سیاست میں آنے کا شوق ہوا، جماعت بھی بنا لی۔

ملک واپس آئے تو ایم کیو ایم جن کو مشرف صاحب نے وہ کچھ دیا، جو ممکن ہی نہ تھا، وہ بھی ائیرپورٹ نہیں آئی، نہ حمایتیوں کو بھیجا۔ رہی بات میاں نواز شریف اور مشرف کے تعلقات کی تو بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت ایک انجانے خوف کا شکار رہتی ہے ۔

جنرل (ر) مشرف بھی ہیرو بن سکتے تھے اور جنرل ضیا، جنرل ایوب بھی، اگر اقتدار نہ سنبھالتے، فوج کی قیادت کرنا قابل فخر بات ہوتی ہے۔

ملک کے دفاع سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور یہی ملک کی خدمت ہوتی ہے مگر ملک کی حکمرانی ان کا کام نہیں کیونکہ مداخلت تنقید کا باعث ہوتی ہے اور سوال ادارے پر اٹھ جاتا ہے پھر اگر حالات آنے پر مجبور کر دیتے ہیں تو کیا ضروری ہے 10 سال، 11 سال اور 9 سال حکومت کریں۔

بہتر ہے کہ سیاستدان اپنا کام کریں اور احسن طریقے سے کریں اور دوسرے اپنا آئین کسی بھی ملک کے طرزِ حکمرانی کا آئینہ دار ہوتا ہے، یہی آپ کی سمت کا تعین کرتا ہے۔

عدلیہ کی تاریخ 2009سے پہلے کالے فیصلوں سے بھری پڑی ہے، اس ملک میں ایسے جج بھی گزرے ہیں جنہوں نے آمر کے ہاتھوں حلف لینے سے انکار کر دیا اور ایسے بھی جو انتظار کرتے رہے کہ کب حکم ملے اور پی سی او کے تحت حلف لینے پہنچ جائیں، آرٹیکل 6 غیر آئینی اقدام سے روکنے کا موثر اور آئینی راستہ ہے۔

آزاد عدلیہ کی 2007کی تحریک نے ایک طاقتور عدلیہ کو جنم دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فیصلے سامنے آرہے ہیں، تاہم بار کونسل اور عدلیہ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وکیل کے پاس دلیل ہو، ہاتھ میں پستول یا لاٹھی نہیں!  

مزید خبریں :