08 جنوری ، 2020
احتساب، اتنا بھی مشکل نہیں جتنا ہم نے اُسے بنا دیا ہے۔ جمہوری معاشروں میں تو خیر انتخابات کو ہی سب سے مؤثر احتساب سمجھا جاتا ہے کسی امیدوار پر صرف اخلاقی اور مالی بدعنوانی کا الزام ہی کافی ہوتا ہے مگر ہمارے جیسے بیمار معاشرہ میں بھی یہ عمل آسانی سے کیا جا سکتا تھا اور اب بھی ہو سکتا ہے اگر ہم اُسے سیاست زدہ نہ کریں۔
اس کی آسان تعریف تو یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری وسائل کو اپنے نجی فائدہ کے لئے استعمال کرنا مگر ہمارا سارا زور صرف اور صرف سیاستدانوں پر ہی چلتا ہے۔
پچھلے ایک سال میں چند ایک کو چھوڑ کر تمام سرکاری افسران احتساب سے بچ گئے۔ کاروباری لوگ یا تاجر بھی نیب کے عذاب سے نکل آئے۔ دوسری طرف توخیر کسی کی نظر کیا جائے گی مگر ہمیشہ کی طرح سارا زور سیاست دانوں پر آتا گیا ۔ اب اس سے موجودہ حکومت کو سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر احتساب کی شفافیت پر سوالات اُٹھ چکے ہیں۔ اگر بقول چیئرمین نیب یہ پچھلے 35سالوں کا حساب کتاب ہے تو اُس میں پی پی پی پر مسلم لیگ (ن) کے علاوہ نو سال مشرف کے اور اُس سے پہلے ایک کے بعد ایک عبوری حکومت اور من پسند حکومتوں کے ادوار ہیں۔
مزید جانیے: 35 سال اقتدار میں رہنے والوں کا پہلے حساب ضروری ہے: چیئرمین نیب
احتساب اگر سرکاری ملازمین سے شروع ہوتا تو آپ کو اندازہ ہو جاتا کہ بات نکلے گی تو پھر دُور تک جائے گی۔ کس کے کتنے اثاثے ہیں معلوم کرنا اتنا بھی مشکل نہیں تھا اگر مقصد صحیح معنوں میں ایک شفاف معاشرہ بنانا ہوتا یہاں تو ایک فائل آگے نہیں بڑھتی جب تک اُس فائل کے اندر قائداعظم کی تصویر والے نوٹ نہ رکھے ہوں۔ کمیشن دینا تو اب ایک طے شدہ معاملہ لگتا ہے۔ اربوں روپے کی ہیر پھیر روز ہوتی ہے اور شاید اسی وجہ سے لوگ امیر اور حکومت غریب نظر آتی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال کو نارووال اسپورٹس سٹی پروجیکٹ منصوبہ میں مبینہ بدعنوانی میں گرفتار کر لیا۔ یہ خبر سن کر مجھے ڈاکٹر عارف علوی کی برسوں پرانی پریس کانفرنس یاد آگئی جو کہ کراچی نیشنل اسٹیڈیم اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایک زمین کے متعلق تھی جو مبینہ طور پر بیچ دی گئی اور اب ایک بڑی رہائشی کالونی بن گئی ہے۔ اُس وقت تو وہ خیر دباؤ میں آگئے تھے مگر اب تو وہ صدرِ پاکستان ہیں اور چونکہ نیب 35سال پرانے معاملات دیکھ رہا ہے تو بھی کچھ نظر کرم ہو جائے۔
ایسی بےشمار مثالیں دے سکتا ہوں مگر ’’احتساب‘‘ کا مقصد صرف سیاست دانوں کو معطون ٹھہرانا ہے تو چلیں یہیں تک محدود رہتے ہیں کراچی کے دودریا والے 100ملین ڈالر کے صاف پانی کے پروجیکٹ پر بات نہیں کرتے جسے 2009میں مکمل ہونا تھا وہ سارے پیسے کہاں گئے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو نے احتساب کے نام پر کئی بیوروکریٹ اور سرکاری افسران برطرف کئے۔ مقصد ’’اپنے پسند‘‘ کے لوگوں کو لانا تھا ورنہ ایک دو کو تو کرپشن پر سزا ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق نے تو مذہب کے نام پر ایک جعلی ریفرنڈم بھی کر ڈالا۔
اقتدار میں رہنے کے لئے منافقت کی اس سے بڑی مثال مل سکتی ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب پہلی بار ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگایا گیا مقصد اکتوبر 1977کے الیکشن ملتوی کرانا تھا۔ پھر کیا تھا جنرل صاحب کا دربار درباریوں سے بھر گیا۔ اگر پچاس سے لے کر آج تک شروع ہونے والی صرف ہائوسنگ اسکیمز کی تحقیقات ہو جائیں تو پتا چل جائے گا کہ زمینوں کی بندر بانٹ کیسے ہوئی سندھ کے تو صرف بورڈ آف ریونیو اور بلڈنگ اتھارٹی، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے معاملات دیکھ لئے جائیں تو پتا چل جائے گا کہ اصل گڑ بڑ کہاں ہے۔
جنرل ضیاء کے 11سال کا کوئی، احتساب نہیں ہو سکا اپنے نامزد وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تو ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ یہ وہ وقت تھا جب شریف برادران کی سیاسی پرورش ہورہی تھی، شیخ رشید صاحب سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔ جنرل جیلانی مرحوم سے لے کر حسین حقانی تک سب جانتے تھے کہ اس سب کا مقصد کیا تھا۔
1988آ گیا سیاست کو کاروبار بنانے اور بنوانے والے سب متحرک تھے۔ پہلے مقصد بھٹو کو پھانسی دینا تھا بعد میں پی پی پی کا راستہ روکنا جس کے لئے سیاست کو کاروبار بنایا گیا۔ کیا اب بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کیسے بنا۔ ایک حکومت کو ’’احتساب‘‘ کے نام پر بٹھایا گیا مگر 1990میں جو عبوری وزیراعظم بنے تو اُنہوں نے 90 روز میں 90 رہائشی پلاٹ مبینہ طور پر من پسند افراد میں تقسیم کر دیئے۔
بعد میں ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا تو کہنے لگے وزیراعظم کا استحقاق تھا استعمال کر لیا۔ کیا کہنے مگر چونکہ اُن کا ’’احتساب‘‘ نہیں ہونا تھا تو نہیں ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ میں جام صادق مرحوم کی حکومت تھی۔ اُس زمانے کی فائلیں بھی کبھی نہیں کھولی گئیں۔ کیوں کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ جام صاحب کا ہاتھ کھلا تھا بہتی گنگا میں سب خوب نہائے۔ یہ وہی دور تھا جس میں ایم کیو ایم والے دوستوں کو بھی ’’چمک‘‘ کا پتا چل گیا پھر کیا تھا۔ ’’ہاتھوں میں ہاتھ دو، جام صادق کا ساتھ دو‘‘۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ پی پی پی جس کو روکنے کے لئے یہ سب کچھ ہوا اُس نے اپنے ادوار میں کرپشن کی روک تھام کے لئے کیا کیا۔ احتساب تو خیر کیا ہوتا بدقسمتی سے انہوں نے بھی کیا کچھ نہیں کیا۔ کیسے بنتے ہیں اور کیسے چلتے ہیں سب جانتے ہیں۔ مجھے تو صرف اتنا پتا ہے کہ جب 1988کے انتخابات کے وقت میں یہ معلوم کرنے گیا کہ ٹکٹ کس کس کو دیا جا رہا ہے تو ایک دوست نے کہا معاملات تو ایک ٹریول ایجنٹ کے ہاں ہو رہے ہیں۔
اب شریف برادران پر آجائیں تو وہ سیاست میں کاروبار لانے کے موجد ہیں اور جب آپ کاروباری ہوں تو ہر چیز کا نفع نقصان دیکھتے ہیں 1997میں ’’احتساب بیورو‘‘ کے نام پر سیف الرحمٰن نے جو کیا وہی پلٹ کر آ رہا ہے حیرت صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو نظریاتی کیسے کہتے ہیں ۔
اب بات ہو جائے اُن کی جن کا نعرہ ہی احتساب، تبدیلی اور کرپشن کے لئے زیرو ٹالرینس تھا مگر اپنے نظریاتی ساتھیوں کو چھوڑ کر ’’کپتان نے اُن لوگوں پر انحصار کیا جو پچھلے 35برسوں کی بہتی گنگا میں نہا کر آئے ہیں۔
خان صاحب سب کو میرٹ کی اسناد دیتے رہے۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں ’’کرپٹ کو کلین‘‘ اور ’’کلین کو کرپٹ‘‘ کہنے میں سیکنڈ نہیں لگاتے۔ باقی چھوڑیں فارن فنڈنگ کہیں میں جلدی کر لیتے۔ 2013میں پارٹی الیکشن کی تحقیقاتی رپورٹ اب بھی موجود ہے رہی بات BRTی ا مالم جبا جیسے کیسوں کی، پشاور میں احتساب کمیشن کی کارکردگی کی تو NABکے چیئرمین جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب کو فرصت ملے گی تو بات ہو گی۔