09 جنوری ، 2020
انسان اگر جادو سے ڈرتا ہے تو چھڑی بھی اُسے ڈراتی ہے اور اگر دونوں مل جائیں اور جادو کی چھڑی بن جائے اور اپنا کام دکھانا شروع کر دے تو پھر اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
شاید یہی وجہ تھی کہ ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں میزبان نے وفاقی وزیر سرور خان سے جب پوچھا کہ اُن کی حکومت کے پاس کون سی ایسی جادو کی چھڑی ہے کہ نون لیگ اور پی پی پی نے اُن سے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملہ پر ہونے والی قانون سازی میں غیر مشروط تعاون حاصل کیا تو اس پر وفاقی وزیر نے جو جواب دیا۔
اُس میں وہ چھڑی پر زیادہ زور دے رہے تھے جبکہ جادو کی بات نہ کر رہے تھے۔ یہ بات کوئی ہفتہ پرانی ہو گی لیکن سب نے دیکھ لیا کہ جو حکومتی وزراء نے کہا وہ سو فیصد سچ ثابت ہوا۔ کس کو جادو سے قابو کیا اور کس کو جادوئی چھڑی سے سیدھا کیا، البتہ حکومت جو کام نکلوانا چاہ رہی تھی اس میں وہ سو فیصد کامیاب و کامران ہوئی۔
وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ حکومت تو نون لیگ اور پی پی پی کو چور ڈاکو سمجھتی ہے، اُنہوں نے ملک لوٹا اس لیے حکومت تو اُن کو منہ بھی لگانا پسند نہیں کرتی۔
واوڈا کو بھی شاید جادو کی چھڑی پر ہی بھروسہ تھا کہ اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ باوجود یہ کہ حکومت اُنہیں گھاس نہیں ڈالے گی، دونوں اپوزیشن جماعتیں دوڑ کر نہیں بلکہ لیٹ کر بھی اس قانون کے حق میں ووٹ دیں گی۔
وقت نے ثابت کیا کہ واقعی دونوں سیاسی جماعتوں (خصوصاً نون لیگ) نے تو لیٹ کر وہی کچھ کیا جو حکومتی وزراء کہہ رہے تھے۔
پی پی پی نے تو ہمیشہ بڑی سمجھداری کی سیاست کی اور جب پھندا اپنے گلے کے قریب پایا تو وہ سب کچھ کیا جو چمڑی اور دمڑی بچانے کے لیے ہمارے کئی سیاسی ’’سیانے‘‘ کرتے آئے ہیں لیکن نون لیگ جو بڑی انقلابی بن چکی تھی، نے بھی یہی کیا اور اسی وجہ سے اِسے اپنے ووٹرز، سپورٹرز کے ساتھ ساتھ میڈیا کی بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میڈیا اور سپورٹرز، ووٹرز کو کیا معلوم کہ جادوئی چھڑی کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
اگر ان اثرات سے نون لیگ اور پی پی پی والے بچے ہوتے تو کیا وہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے جو آج کل کرتے نظر آ رہے ہیں۔ چلیں! ایک کام ہو گیا اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ہو گیا جس کے لیے بے شک جادو کی چھڑی کو بھی اپنا کام کرنا پڑا لیکن میرا سوال حکومت، اپوزیشن اور دوسرے متعلقہ فریقوں (یعنی جادو کی چھڑی والے) سے یہ سوال ہے کہ جس طرح تحریک انصاف اور نون لیگ و پی پی پی اس مسئلے میں محمود و ایاز بن کر ایک ہی صف میں کھڑی ہو گئیں تو یہی ایکا پاکستان کی معیشت کو سدھارنے، اندازِ حکمرانی کو بہتر بنانے۔
اس ملک سے غربت و افلاس کے خاتمہ، اداروں کی مضبوطی، سستے انصاف کی فراہمی، پاکستان کی خوشحالی وغیرہ کے لیے کیوں نظر نہیں آتا؟ جادو کی چھڑی ان معاملوں میں کیوں چلتی نظر نہیں آتی۔
سیاستدان کیا جادوئی چھڑی کے ڈر سے ہی کام کریں گے؟ جادو اور چھڑی سے ڈرنے والے کیا اپنے رب سے نہیں ڈرتے؟ وہ کیا جواب دیں گے کہ اُن کی سیاست کا محور اُن کے اپنے ذاتی مفادات ہی ہیں اور ایسا ہی ہمیشہ رہے گا؟
کیا وہ ہمیشہ جادو کی چھڑی کے ڈر اور اس کے چلنے پر ہی چلیں گے یا اپنی اصل ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے وہ کچھ بھی کریں گے جو اس ملک کے عوام کا حق ہے اور جس سے آئین و قانون کی پاسداری اور پاکستان کو ایسے انداز میں چلانا ہے جس سے یہاں ترقی اور خوشحالی کا راج ہو اور گراوٹ کا سلسلہ اور تنزلی کا سفر رک جائے۔
پاکستان کے ساتھ بہت ظلم ہو چکا، عوام کے ساتھ کبھی کسی نعرے کی بنیاد پر اور کبھی قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پر بار بار دھوکا ہوا۔ اب تو واقعی کسی ایسی جادو کی چھڑی کا انتظار ہے جو ہمارے رویے بدل دے.
جو ہمیں اپنی اپنی ذات اور اپنے اپنے مفادات کے بجائے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کے ساتھ ایسا تعلق جوڑنے میں مدد دے کہ جب ہم جادو کے سحر سے باہر نکلیں یا چھڑی سے بے خوف ہو کر سوچیں تو ہمیں اپنے اپنے رویوں اور عمل پر شرمندگی نہیں بلکہ اطمینان ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)