سندھ میں جاری پولیس مقابلہ

فوٹو فائل—

لگتا تھا کئی ہفتوں سے جاری پولیس مقابلہ اب ختم ہونے کو ہے اور آئی جی سندھ کا معاملہ کسی نہ کسی صورت حل ہو جائے گا مگر یہاں معاملہ افراد کا نہیں نظام ہے جس کو ہم بہتر کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بیماری ’’کورونا وائرس‘‘ کی مانند ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ہم پولیس کو بہتر کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں،معاملہ سندھ کا ہو یا پنجاب کا یا بلوچستان کا۔ کے پی کی صورتحال ہمیشہ سے بہتر رہی ہے اور وہاں پولیس مقابلے کا رجحان بھی نہیں رہا۔ ناصر درانی جو سابق آئی جی پولیس رہےخاصے بہتر اقدامات کر کے گئے مگر وزیر اعظم جو ان کی مثالیں دیتے تھکتے نہیں تھے کے باوجود پنجاب میں ان کی خدمات سے محروم رہے کیونکہ وہاں حکومت چلانے کے لئے پولیس کا استعمال ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہے۔

نیا آئی جی پولیس جو بھی آئے گا اس کے سامنے کراچی سمیت سندھ میں بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام جیسے مسائل کا سامنا ہو گا کیونکہ سندھ حکومت سمجھتی ہے کہ موجودہ آئی جی ناکام ہو گئے ہیں اور سیاست کر رہے ہیں۔

رہی بات عوام کی تو پہلے بھی لوگوں کو پولیس پر خاص اعتماد نہیں تھا، نہ ہی اس میں کوئی بہتری آئی وگرنہ پچھلے 31سال سے رینجرز کراچی میں نہ ہوتی، بیرک میں واپس چلی گئی ہوتی۔

سندھ میں پولیس کورونا وائرس پرانا ہے اسے ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ خود پی پی پی اس کا سب سے زیادہ شکار رہی مگر بدقسمتی سے سبق نہیں سیکھا۔ایک غیر جانبدار پولیس فورس سے اگر کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو خود پی پی پی کو کیونکہ مختلف ادوار میں وہ خود اس کے زیر عتاب رہی ہے۔ 

وقت وقت کی بات ہے کہ آج ایک صوبائی وزیر پولیس کی زیادتیوں کی شکایات کر رہے ہیں ورنہ وہ تو جام صادق اور سید مظفر حسین شاہ کے ادوار میں ان سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ان سے زیادہ اس پولیس فورس کو کون جانتا ہوگا ماسوائے سابق وزیر داخلہ سندھ، عرفان اللہ مروت صاحب، جنرل (ر) شفیع الرحمان کی رپورٹ کی کاپی اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ 

کراچی میں ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلے ریاستی پالیسی کا حصہ رہے ہیں جو آج بھی ملک بھر کی طرح کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں ہوتے رہتے ہیں۔

پولیس آرڈر 2002اگر اپنی اصلی شکل میں نافذ ہوتا تو شاید اب تک صورتحال بہتر ہوتی اور کسی حد تک پولیس کا غیر سیاسی کردار نمایاں نظر آتا۔ پولیس افسران جب اپنے تعلقات کی بنا پر تبادلے کروا ئیں گے تو پھر پولیس سیاسی ہی رہے گی اور بات صرف پولیس ہی کی کیوں، دیگر اداروں کا حال بھی مختلف نہیں۔

موجودہ پولیس آرڈر 2002سندھ میں دوسری بار نافذ کیا گیا ہے مگر کچھ ترامیم کے ساتھ، اس سے پہلے سابق آئی جی پولیس، سندھ اے ڈی خواجہ کیس میں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے کچھ رہنما اصول واضح کر دیےتھے خاص طور پر آئی جی پولیس کے تبادلے اور اختیار ات کے حوالے سے، شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے کلیم امام کے کیس میں اسٹے آرڈر دیا ہوا تھا اور اب یہ اسٹے آرڈر ختم کر دیا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں آئی جی پولیس کا تبادلہ بغیر کسی تنازع کے کیوں ہو جاتا ہے۔

کے پی یا بلوچستان میں مسئلہ کورٹ تک کیوں نہیں جاتا۔ ساری لڑائی سندھ میں ہی کیوں ہوتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ 2013کے الیکشن کے بعد اچانک راتوں رات پولیس آرڈر 2002ءختم کر کے انگریزوں کے زمانے کا پولیس ایکٹ 1861نافذ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔

اتنی جلدی کے ایک رات اس وقت کے ہوم سیکریٹری کو بلاول ہاؤس بلایا جاتا ہے اور حکم ملتا ہے کہ 2002ءکے آرڈر کی جگہ کوئی دوسرا نظام لایا جائے۔وہ وقت مانگتے ہیں تو 1861کاپولیس ایکٹ جاری کردیا جاتا ہے۔ یقین جانیں سندھ میں پولیس کا بڑی بےدردی سے استعمال ہوتا رہا ہے۔

یہ جام صاحب کا دور تھا، ایک سیشن جج کا قتل ہو گیا، دہشت گردوں نے عدالت سے واپسی پر لنڈا بازار کے سامنے ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ کچھ عرصے بعد پولیس نے دو افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس وقت کے پولیس سربراہ نے جام صاحب کو فون کر کے اطلاع دی۔

جام صاحب نے مبارکباد دی اور ڈی آئی جی کراچی سے کہا کہ اس کا الزام پی پی پی اور الذولفقار تنظیم پر دھردو اور ایک دو اُن کے بھی لوگ گرفتار کر لو، جب اس نے درخواست کی تو جواب آیا ’’تجھے انعام مل جائے گا، کیس خراب ہوتا ہے تو ہو جائے‘‘۔داستانیں لکھنے پر تو کتاب آ سکتی ہے مگر ایک سابق آئی جی پولیس بشیر صدیقی صاحب کایہ بیان آج بھی مجھے یاد ہے کہ اگر کسی علاقے میں جرم ہو تو ایک مقدمہ علاقے کےSHOپر بھی ہونا چاہئے۔

اہم سوال یہ ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ (1)پولیس والے کی دوستی قانون سے ہونی چاہئے، قانون بنانے والوں سے نہیں۔ اسے قانون کو فالو کرنا چاہئے،بنانے والے کو نہیں، (2)پولیس پورے ملک میں مقامی ہونی چاہئے خاص طور پر تھانوں کی سطح پر،مقامی پولیس یا کمیونٹی پولیس دنیا کے بیشتر ممالک میں کامیاب ماڈل رہا ہے۔

مقامی پولیس ریفارم کمیٹی جو اچھی شہرت رکھنے والے افسران نے تیار کی ہے، کی تجاویز پر من و عن عمل درآمد کرنا چاہئے، اس میں پولیس کے احتساب کی سفارشات بہت اہم ہیں۔

اگر ان پر آج عملدر آمد ہو جاتا تو شاید سندھ حکومت کی آئی جی کے حوالے سے شکایات کا ازالہ ہو جاتا اور دونوں کے درمیان پولیس مقابلے کی نوبت نہ آتی۔ ریفارم کمیٹی نے ماڈل پولیس لا کا تصور بھی دیا ہے۔

اصل مسئلہ کسی مسئلے کو حل کرنا ہے وہ بھی اگر آپ کرنا چاہئیں، نہ پولیس کو سیاسی ہونا چاہیے نہ سیاستدان کو غیر سیاسی کیونکہ سیاست خدمت کا نام ہے، اپنی نہیں، عوام کی اور یہی اصل جمہوریت ہے۔

مزید خبریں :