31 جنوری ، 2020
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے سامنے انکشاف ہوا ہے کہ نجکاری کمیشن کی جانب سے 2007 سے 2012 کے دوران 5 ارب 72 کروڑ روپے کی خلاف قواعد سرمایہ کاری کی گئی۔
اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چئیرمین رانا تنویر کی زیر صدارت ہوا جس میں نجکاری کمیشن کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ نجکاری کمیشن نے 2007 سے 2012 کے دوران 5ارب 72 کروڑ روپے کی خلاف قواعد سرمایہ کاری کی۔
بطور سرمایہ کاری 10 نجی بینکوں میں 5 ارب 72 کروڑ روپے وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیر رکھے گئے اور جن بینکوں میں سرمایہ کاری کی گئی، ان میں سے 3 بینکوں کے ممبران نجکاری کمیشن بورڈ میں بھی شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق ٹرسٹ انویسٹمینٹ بینک کے آصف کمال، عارف حبیب بینک کے خورشید ظفر اور کسب بینک کے اصغر علی شاہ نجکاری بورڈ کے ممبر تھے۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ ٹرسٹ انویسٹمینٹ بینک کا کیس قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھجوایا گیا ہے، بینک میں 50 کروڑ روپے غیر قانونی طور پر رکھے گئے اور بینک بعد میں دیوالیہ ہو گیا۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن نے مزید بتایا کہ اس وقت نجکاری کمیشن کے کم و بیش 2 ارب روپے بینکوں میں پڑے ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نجکاری سے اب تک حاصل ہونے والی آمدن اور نجکاری کمیشن کے اخراجات کی تفصیلات طلب کر لیں۔
آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ نجکاری کمیشن نے 3 ارب 58 کروڑ روپے خلاف ضابطہ حبیب بینک کے اکاؤنٹ میں بھی ٹرانسفر کیے جس پر پی اے سی نے اس معاملے کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔