بلاگ
Time 10 فروری ، 2020

اگلے تین مہینے!

فائل فوٹو

مافیا کی چالیں، مہنگائی کی دھمالیں، ذخیرہ اندوزوں کی موج، باہم دست وگربیاں وزرا کی فوج، کمانے والے کمار ہے، کھانے والے کھا رہے، اُتوں اُتوں رولا، اندروں اندروں ہتھ ہولا، عمرانی بڑھکیں خوف نہ ڈر، عوامی چیخیں رونا گھر گھر، اپوزیشن کے اپنے مکر اپنی عیاریاں، اپنی اپنی بس اپنی اپنی سواریاں، کوئی کیسوں میں پھنسا ہوا، کوئی ڈیلوں میں لگا ہوا۔

کوئی خود کو بچا رہا، کوئی دوسرے کو پھنسا رہا، بیٹا باپ کو چھڑا رہا، باپ بیٹی کو بلا رہا، بھائی بھائی کو بچا رہا، نام ملک وقوم کا، دھندے سارے اپنے، کرسی کی چاہت، اقتدار کے سپنے، حکومت بھلا بیٹھی منشور، اپوزیشن ہوئی عوام سے دور، غریب بے بس مجبور، جس طرف جائے، اسی طرف سے جا دفع دور۔

یہ سب کیوں، حالات یہاں تک کیسے پہنچے، کچھ بنارسی ٹھگوں کی مہربانی، کچھ تبدیلی سرکار کی نالائقیاں، کچھ حالات کی ستم ظریفیاں، صورتحال یہ، معاشی بحران آچکا، کیسے، حکومت کے اپنے اعداد و شمار حاضر ہیں، تھوڑی سی توجہ چاہئے، وزارتِ خزانہ بتا رہی۔

ہماری سالانہ آمدنی 3 ہزار پانچ سو ارب، چاروں صوبے ہمیں اکٹھا کرکے دینگے 4سو ارب، وزارتِ خزانہ بتا رہی، حکومتی اخراجات 7ہزار ارب، اب آمدنی تین ہزار پانچ سو ارب، صوبے دیں گے 4سو ارب، ٹوٹل ہوا تین ہزار 9سو ارب، اخراجات 7ہزار ارب۔

لہٰذا خسارہ 3ہزار ایک سو ارب، آگے سنیے، ایف بی آر بتائے، ہم نے جولائی سے دسمبر تک ٹیکس اکٹھا کیا 2ہزار 83ارب، مطلب خسارہ 3ہزار ایک سو ارب، ٹیکس اکٹھا ہوا 2ہزار 83ارب، اب باقی خسارہ رہ گیا ایک ہزار 17ارب، یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ ایف بی آر کا سالانہ ٹیکس ٹارگٹ 5200سو ارب، یہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، آگے سنیے۔

وزارتِ خزانہ ہی بتا رہی، اس سال جولائی تک 19سو ارب مزید قرضہ لیا جائے گا، 8سو ارب اندرونِ ملک سے، 11سو ارب بیرونِ ملک سے، یہ بھی سن لیں، وزارتِ خزانہ ہی بتا رہی کہ 2023تک پاکستان نے صرف سوا دو ارب ڈالر قرضہ تو بیرونِ ملک واپس کرنا ہے، اندرونِ ملک قرضہ اس کے علاوہ، اب جب صورتحال یہ ہوکہ آمدنی 5روپے، خرچہ 5سو روپے، اوپر سے 5ہزار قرضہ تو گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔

اب یہ خطرناک اعداد و شمار اوپر سے تبدیلی سرکار، مانا تبدیلی سرکار کو قرضوں میں ڈوبا ملک ملا، مانا تبدیلی سرکار کو بدحال معیشت ملی، مانا تبدیلی سرکار کو ہر ادارہ زمین بوس ملا، مگر اب یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ صاف نیتی، ایمانداری کے باوجود عمران خان کی حکومتی ناتجربہ کاری کا نقصان ہوا۔

عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے وزیر رہے نہ مشیر، بیورو کریسی کو ڈیل کیا نہ حکومت چلائی، یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ تحریک انصا ف کے زیادہ تر وعدے، دعوے، نعرے حقیقت پر مبنی نہیں تھے، اکثر باتیں ہوائی۔

یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ عمران خان جو رائٹ پیپل فار رائٹ جاب نہ لگا سکے، اس کا بھی بہت نقصان ہوا اور ہو رہا، یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ تبدیلی سرکار کی کنفیوژن، نالائقیوں نے کئی سنورے کام بھی بگاڑ دیے۔

اوپر سے آپس کی گروہ بندیاں، آپسی سازشیں، آؤٹ آف کنٹرول زبانیں، غیر ضروری لڑائیاں، نقصان ہی نقصان۔ یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ تبدیلی سرکار کا فوکس نہیں، فالو اَپ نہیں، مطلب پہلے یہ پتا نہیں کرنا کیا، یہ پتا چل گیا کہ کرنا کیا تو یہ پتا نہیں کرنا کیسے۔

یہ پتا چل گیا کرنا کیا، کرنا کیسے تو ’فوکس‘ مسئلہ، اگر یہ پتا چل گیا کرنا کیا، کیسے کرنا، فوکس بھی تو پھر فالو اَپ نہیں، یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ اچانک 95فیصد سبسڈی ختم کر دینا، آئی ایم ایف کی سب شرائط من و عن مان لینا بھی معاشی بدحالی کی ایک وجہ۔

جب آپ کو آئی ایم ایف بتائے گا کہ ڈالر کتنے کا رکھنا، مہنگائی کتنی کرنی، شرح سود کہاں تک لے جانی، بینکاری کیسے کرنی، کس سے قرضہ لینا، کس سے نہیں، کون سے شعبے میں کیا کام کرنا، کتنا ٹیکس لگانا، مطلب جب آپ نہیں سب پالیسیاں آئی ایم ایف بنائے گا تب یہی ہوگا جو ہو رہا، آئی یم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا، آئی ایم ایف سے قرضہ لینا۔

اتنی بری بات نہیں جتنی بری بات آئی ایم ایف کی ہر شرط من و عن مان لینا، جن شرائط پر تحریک انصاف حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا، ان شرائط پر تحریک انصاف حکومت ہی قرضہ لے سکتی ہے۔

اب یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت مافیاز کے سامنے بےبس، دوائیوں والے اربوں کما چکے، ٹماٹر والے دہاڑی لگا گئے، چینی والوں کی نسلیں سنور گئیں، آٹے والے نوٹ چھاپ کر چلتے بنے، حکومت ٹی وی اسکرینوں پر بڑھکیں مار رہی، زبانی کلامی ڈرا رہی جبکہ مافیاز نوٹ چھاپی جا رہے۔

اگر حکومت دوائی اسکینڈل ملزمان کو نشانِ عبرت بنا دیتی تو ٹماٹر اتنا مہنگا نہ ہوتا، اگر ٹماٹر مہنگا کرنے والوں کا کچھ کر لیتی تو مہنگائی کو بریکیں لگ جاتیں، اگرحکومت آٹا مافیا کو منطقی انجام تک پہنچا دیتی تو چینی مافیا لوٹ مار نہ کر پاتا، اگر حکومت شوگر مافیا کا کچھ کر لیتی تو باقی مافیاز خود بخود تتربتر ہو جاتے۔

مگر ہماری یہ قسمت کہاں کہ حکومت عوام کا سوچ کر اپنے لاڈلوں، چہیتوں کے خلاف کچھ کرے، ہمارے یہ نصیب کہاں کہ کوئی مافیا منطقی انجام تک پہنچے۔

یہاں تو حالات یہ، جس دن وزیراعظم مہنگائی کا نوٹس لے کر کہہ رہے ہوں کہ مہنگائی مافیا کو نہیں چھوڑوں گا اسی دن مہنگائی اور بڑھ جائے، اب یہ معلوم نہیں مافیاز طاقتور یا حکومت کمزور، یہ سمجھ سے باہر مافیاز اتنے منہ زور کیسے کہ نہ صرف عمران خان کچھ بگاڑ نہ پائیں، نہ صرف شیخ رشید کو چین میں ڈرائیں، دھمکائیں بلکہ شبر زیدی پر اتنا دباؤ کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔

ویسے تو ہمارے جیسے معاشرے، ہمارے جیسے ملکوں، ہماری سیاست میں کبھی بھی، کچھ بھی ناممکن نہیں مگر نصابی، کتابی بات کریں تو ابھی تبدیلی سرکار کو آئے ڈیڑھ سال ہوا ابھی ساڑھے تین سال باقی۔

اب بھی بہت کچھ ہو سکے، لیکن مہنگائی، بےروزگاری، گورننس، پرفارمنس، اگر اگلے 3مہینوں میں اس حوالے سے کچھ نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔