25 فروری ، 2020
تھے تلخ بہت بندہ ٔمزدور کے اوقات ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات اور سچ یہ کہ صدیوں بلکہ ہزاریوں سے ان میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
چندرگپت، اشوک ہو، سلاطین دہلی ہوں یا آلِ تیمور اور پھر انگریز، روکھی سوکھی اور دو وقت کی روٹی ہی ان کا مسئلہ اور مقدر تھی، ہے اور نجانے کب تک رہے گی، بجا کہ ٹیکنالوجی نے معقول تعداد میں متوسط طبقہ پیدا کیا لیکن بندہ ٔمزدور کی اوقات اورکے اوقات کی تلخی میں کوئی کمی نہیں آئی اور یہی بات دیسی میموں اور کالے پیلے بھورے صاحبان کو سمجھ نہیں آ رہی ورنہ وہ سوشل میڈیا پر گائے، بھینس، بکری، مرغی کی معیشت کا بے رحمانہ مذاق نہ اڑاتے۔
دوباتیں سمجھنے کی ہیں اول یہ کہ ڈھور ڈنگر کو مال مویشی کہتے ہیں، اسی لئے محاورہ ہے کہ پٹواری کی بھینس مری تو پورا گاؤں تعزیت کیلئے جمع ہو گیا لیکن جب پٹواری خود مرا تو تعزیت کرنے والے خال خال دکھائی دیئے۔
اشفاق احمد مرحوم نے یونہی نہیں لکھا تھا کہ غریب آدمی مرغی اس وقت کھاتا ہے جب خود بیمار ہو یا پھر اس کی مرغی بیمار ہو میں نے بھی کبھی لکھا تھا کہ پولٹری کے موجد کا شکریہ ادا کرو ورنہ آج عوام اپنی اولادوں کو چڑیا گھر لے جا کر مرغا مرغی کے درشن کراتے اور بتاتے کہ بچو!ہمارے بزرگ کبھیکبھی یہ پرندہ نما کھایا بھی کرتے تھے۔
کبھی غور کریں بندۂ مزدور کی زندگی بیحد BASIC تھی اور ہے جسے نہ کبھی کوئی بادشاہت تبدیل کر سکی نہ جمہوریت نہ فوجی آمریت، نہ کوئی قائد عوام اصل عوام کو کوئی ریلیف دے سکا نہ کوئی مرد مومن مرد حق ان کی پوٹلیاں تبدیل کر سکا بلکہ الٹا نوبت لنگرخانوں تک آپہنچی جو اس سے پہلے صرف مزاروں درباروں تک محدود تھے۔
ایک عجیب وغریب ذاتی تجربہ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، جس کا جی چاہے چیلنج کرکے دیکھ لے کہ لاہور جیسے شہر کا بھی حال کیا ہے، میں نے پہلا گھر 1980-81ء میں بنایا تو پہلی بار بغور بندۂ ٔمزدور کی لنچ پوٹلیوں کا جائزہ لیا۔
رنگین سی پوٹلی میں دو تین پراٹھے یا موٹی روٹیاں، گُڑ، پیاز، کوئی سوکھا سالن(سبزی دال) یا ایسا آملیٹ جس میں پیاز وغیرہ ٹھوک کے ڈالا گیا ہوتا، پھر چھ سات سال بعد بیدیاں روڈ پر ٹھیٹھر نامی گاؤں میں فارم ہاؤس بنایا جب اس کا رواج ہی نہ تھا۔
فارم ہی فارم تھا جس میں بانس لگوائے ہاؤس بہت مختصر لیکن خاصی اونچائی پر تھا، اس کی تعمیر میں بھی بندۂ مزدور کا مینیو وہی تھا جو اوپر عرض کر چکا، پھر 2000ء میں یعنی پندرہ سولہ سال بعد بیلی پور آباد کیا اور ہانسی حویلی کی تعمیر شروع کی تو بندہ ٔمزدور کا مینیو پھر وہی کا وہی تھا۔
مہنگائی جتنی بھی بڑھ جائے، روپیہ جتنا بھی گھٹ جائے، مزدور کا یہ مینیو اس کے مقدر کی طرح تبدیل نہیں ہوسکتا جس کی انتہا یہ کہ تقریباً تین ساڑھے تین سال پہلے جب موجودہ گھر زیر تعمیر تھا، میں نے بیسمنٹ میں سب مزدوروں کو ایک بار پھر باجماعت لنچ کرتے دیکھا تو صرف پیکنگ میں یہ تبدیلی نظر آئی کہ اس بار پوٹلیاں کپڑے کی نہیں پلاسٹک کی تھیں لیکن مینیو 100 فیصد وہی تھا۔
نہ کھانا تبدیل ہوا تھا نہ کھانے والے نہ ان کے نصیب، صدیوں نہیں ہزاریوں کی بھوک ہے جو ان کے DNA میں بھی ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے کہ جو اب متمول بھی ہو چکے لیکن حالت یہ کہ شادیوں وغیرہ پہ کھانا کھلتا ہے تو لوگ بھی کھلتے ہیں جو جمہوریت کا حسن بھی ہے اور بہترین انتقام بھی۔
کبھی سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات پر سالگرہ کے کیکوں پر یلغار دیکھی ہے آپ نے؟ دشت تو دشت ہیں دیگیں بھی نہ چھوڑی ہم نے عرض کرنے کا مقصد یہ کہ پیٹ بھرے (؟) نہیں جانتے کہ گاؤں کے کسی عام کمی مزارع کے گھرانے میں گائے، بھینس، بکریوں اور چند مرغیوں کا مطلب کیا ہے۔
یہ بیچارے اپنے جانوروں کی خدمت کرتے ہیں، مفت کی چرائی کے ساتھ یہ ان کا علاج بھی عموماً خود ہی کرلیتے ہیں، ان کا دودھ، دہی، گھی، لسی ان کا من وسلویٰ ،کچھ کھالیا کچھ بیچ لیا، یہاں تک کہ گوبر کی کھاد یا اپلے بھی مال ہے اور جب دیسی انڈا بکتا ہے تو یہ کوئی دیسی میم سوچ بھی نہیں سکتی کہ ان انڈوں سے کیا برآمد ہوتا ہے۔
گائے، بھینس، بکری، مرغی، بچہ دیدے تو یہ لاٹری سے کم نہیں ہوتا، مبارکبادیں وصولتے اور خوشی سے پھولتے ہیں، گائے، بھینس، بکری امید سے ہو تو کہتے ہیں ہری ہو گئی جیسے کھیتی ہری ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس لئے اس پروگرام کو جگتیں نہ ماریں اور دعا دیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح اسے بھی افسران اور وچولے ہی نہ لے اڑیں، اس پروگرام میں خامی ہی صرف یہ ہے کہ ڈاکیئے ہی ڈاک غائب نہ کر دیں، مال مویشی دیانتداری سے بندۂ مزدور تک پہنچ گیا تو اسے خاصی ریلیف مل سکتی ہے کہ ریلیف کی اقسام اور سائز اپنا اپنا ہوتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔