Time 01 مارچ ، 2020
بلاگ

افغان امن۔ کیا ممکن ہے؟

امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو عبوری دور کے لیے افغانستان میں مامور کیا جانا چاہیے—فوٹو اے ایف پی

بوقتِ تحریر قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدے پہ دستخط ہو گئے ہیں۔ اس معاہدے کی رُو سے امریکہ نے 18برس کی طویل جنگ کے بعد افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کے شیڈول کا اعلان کیا ہے اور طالبان نے افغان سرزمین سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہر طرح کی دہشت گردی کے سدِباب کی یقین دہانی کرائی ہے۔

قطر میں معاہدے کی اس تقریب میں امریکی سیکرٹری خارجہ پومپیو موجود تھے تو امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر افغان حکومت کے ساتھ ایک مشترک بیان جاری کرنے کے لیے کابل میں موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے افغانستان میں جنگ بندی رہی اور معاہدے کے بعد یہ کتنی قائم رہ سکے گی ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اسی طرح امن عمل کے نتیجہ میں اُمید کی جا رہی ہے کہ افغان گروپوں کے مابین صلح اور سیاسی و آئینی سمجھوتے کے لیے ان کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہوگا جس کے لیے 10 مارچ کی تاریخ تجویز کی گئی ہے۔

اگلے پانچ ماہ میں امریکہ اپنے 13ہزار فوجیوں کو کم کرکے 8600کرتے ہوئے فوجی انخلا کو کن شرائط کے تحت مکمل کرے گا ابھی واضح نہیں ہے۔ گو کہ یہ معاہدہ دو فریقوں کے مابین ہے اور اس سے افغان حکومت کو باہر رکھا گیا ہے۔ لیکن یہ امر یقینی ہے کہ اس سے افغانوں کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا۔

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا افغان خانہ جنگی میں ملوث افغان گروہ افغانستان میں کسی وسیع البنیاد عبوری حکومت اور افغانستان کے آئینی مستقبل کے بارے میں کسی سمجھوتے پہ متفق ہو سکیں گے اور جو آئینی حقوق خواتین اور شہریوں کو دیے گئے ہیں انہیں برقرار رکھا جا سکے گا، یا پھر جیسے افغانستان روس اور افغان مجاہدین کے مابین جنیوا معاہدے کے باوجود خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔

750ارب ڈالرز خرچ کرنے، 23سو امریکی فوجی مروانے اور افغانستان میں 18سال لڑنے کے باوجود امریکہ فوجی فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا اور جن طالبان کونائن الیون کے بعد امریکہ نے حملہ کر کے کابل سے بے دخل کیا تھا وہ 2014میں بیرونی فوجوں کی جانب سے براہِ راست کارروائیوں کے خاتمے کے بعد افغانستان کے بڑے حصوں پہ قابض ہو چکے ہیں اور اس عرصہ میں افغان فوج کے 43ہزار سے زائد فوجی جاں بحق ہوئے۔

باوجودیکہ داعش نے طالبان کے کچھ گروپوں کو ساتھ ملا لیا ہے اور بہت سے کمانڈر مختلف جنگی سرداروں کے ساتھ مل گئے ہیں، افغان طالبان نے اپنا اتحاد برقرار رکھا ہے۔ قطر معاہدے کے بعد افغان طالبان ایک کامیاب حربی تحریک کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں جن کے سامنے امریکہ جیسی سپرپاور ٹھہر نہ سکی۔

دوسری جانب 18برس کی کوششوں کے باوجود ایک ریاستی ڈھانچہ تو بنا لیکن داخلی خلفشار کا شکار رہا۔ گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باعث دو بڑے فریقوں یعنی صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللّٰہ میں تصادم بڑھ گیا ہے۔ عبداللّٰہ عبداللّٰہ کی متوازی حکومت بنانے کی دھمکی کے نتیجے میں اشرف غنی کی بطور صدر حلف برداری کی تقریب ملتوی کر دی گئی ہے۔

امریکی ایلچی خلیل زاد بمشکل ان دو صدارتی اُمیدواروں کے مابین ممکنہ تصادم کو ملتوی کرا پائے ہیں۔ افغانوں کے مابین ہونے والے مجوزہ مذاکرات کے لیے فاتح افغان طالبان تو یکسوئی سے شریک ہوں گے، لیکن افغان حکومت اور اس کی اپوزیشن کے مابین ایک متفقہ وفد پہ اتفاقِ رائے بہت مشکل ہے۔ اس صورت میں افغان طالبان اپنے مخالفین کے اندرونی اختلافات سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں گے۔ صدر اشرف غنی کی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی ہے اور اُن کے سابقہ اتحادی بشمول سابق صدر حامد کرزئی اُس کے خلاف متحرک ہو گئے ہیں۔

دوستم جیسے بہت سے علاقائی جنگی سردار بھی اپنی اپنی دھڑے بندی میں مصروف ہیں۔ جب جنیوا معاہدہ ہوا تھا تو پاکستان نے افغان مجاہدین کو اکٹھا کرکے مذاکرات کی میز پر بھیجا تھا، اب امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے افغان اتحادیوں یعنی حکومت اور اس کی اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن جو وفد بھی بنایا گیا اُس میں کوئی باہمی اتفاق نہیں ہو سکے گا اور وہ طالبان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ لین دین کی جانب راغب ہوں گے۔

گزشتہ ہفتے کی فائربندی پر افغان عوام نے پہلی بار سکون کا سانس لیا ہے۔ وہ چار عشروں کے خون خرابے سے تنگ آ چکے ہیں اور امن کے لیے بیتاب ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغان خانہ جنگی میں ملوث سبھی عناصر جنگ بندی پہ راضی ہوں اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں قومی اتفاقِ رائے پیدا کریں۔

افغان اگر جنگجو ہیں تو اُن میں باہمی اختلافات کو دُور کرنے کی بھی بڑی صلاحیت ہے۔ سافما کے افغانستان چیپٹر کی دعوت پر جب میں کابل میں تھا تو سافما افغانستان چیپٹر کے سابق صدر جو اب ایک صوبے کے گورنر بن چکے تھے، مجھے کابل میں ایک شادی میں لے گئے۔ وہاں ایک بڑے ہال میں علاقے کے سبھی بزرگ جمع تھے۔

میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب میرے افغان دوست نے مہمانوں سے میرا تعارف کرایا۔ مہمانوں میں افغان طالبان سمیت ہر گروپ کے لوگ موجود تھے اور ایسے باہم شیر و شکر تھے کہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ خانہ جنگی میں کس خوفناکی سے مصروف ہیں۔ ماضی میں قومی اولسی جرگے ہوتے تھے جو اب بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ اس کے مندوبین کون ہوں۔

لیکن اس سے قبل افغانوں کے مابین قومی اتفاقِ رائے کا نازک مرحلہ ہوگا۔ اگر یہ کامیابی سے آگے نہ بڑھا تو افغانستان پھر سے ایک نئی خانہ جنگی کی جانب بڑھے گا جس سے افغان مہاجرین کی ایک نئی لہر پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی جانب رواں ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔

اور پھر ایک اور عذاب نازل ہوگا۔ افغانستان کے عوام امن چاہتے ہیں اور وہ اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ افغانوں کا افغانوں کے ہاتھ جتنا خون بہایا گیا ہے، اُتنا شاید بموں سے نہیں ہوا۔ افغانستان کی صورتحال بگڑی تو پھر علاقائی قوتیں بھی اپنے اپنے مفادات کے لیے اس میں کود پڑیں گی جو بڑی غلطی ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ تمام علاقائی اور عالمی قوتیں مل کر افغانوں کو ایک میز پر بٹھائیں اور افغانستان کے لیے ایک متفقہ آئین پہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیرِ نو کے لیے ایک گرینڈ پلان پیش کریں۔

امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو عبوری دور کے لیے افغانستان میں مامور کیا جانا چاہیے جو جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ افغان باہمی مصالحت اور قومی اتفاقِ رائے کے لیے ہونے والے مذاکرات کی میزبانی کے لیے بہت سے ممالک دلچسپی رکھتے ہیں۔

اگر یہ مذاکرات اقوامِ متحدہ کے ذریعے ہوں تو افغان قومی مصالحت کو یقینی بنانے اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ایک عالمی پلان ترتیب دیا جا سکے گا۔ پاکستان کو اس بارے میں بہت ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا جیسا کہ اس نے طالبان کو امریکہ سے مذاکرات کے لیے راضی کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔

خطے کا امن ناقابلِ تقسیم ہے اور خاص طور پر ڈیورنڈ لائن کے آر پار امن پاکستان اور افغانستان کے لیے ضروری ہی نہیں ناقابلِ تقسیم بھی ہے۔ شاید یہ مناسب وقت ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی تنازعات سمیت تمام اختلافی مسائل کا حل بھی تلاش کیا جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔