بلاگ
Time 07 مارچ ، 2020

کورونا وائرس اور ہم

پاکستان میں اب تک مہلک کورونا وائرس کے 6 کیسز سامنے آچکے ہیں—فوٹو فائل

چین پاکستان کی طرح غریب اور پسماندہ نہیں بلکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ امریکا کے بعد دوسری بڑی طاقت جس کے بارے میں امریکا کو خطرہ ہے کہ وہ اس کے مقابلے کی یا پھر اس سے بڑی طاقت بننے جا رہا ہے۔ اس کی تجارت پوری دنیا تک پھیلی ہوئی ہے اور اب وہ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے ذریعے پاکستان سمیت دنیا کے درجنوں ممالک میں سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ کا جال پھیلا رہا ہے۔ 

ماضی میں وجوہات اور تھیں جبکہ اب کچھ اور ہیں لیکن چینی امریکا سے لے کر یورپ تک اور آسٹریلیا سے لے کر ملائیشیا تک دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی دنیا کے لئے سنگین مسئلہ بنی رہی جس کی وجہ سے اسلامی ممالک بالخصوص افغانستان، پاکستان، ایران اور اسی نوع کے دیگر اسلامی ممالک کے شہریوں کو دنیا بھر میں مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا تھا لیکن چینی تب بھی ترقی یافتہ مغربی ممالک کی طرح دنیا بھر میں سینہ تان کر پھرتے رہے۔ 

وجہ اس کی یہ تھی کہ چین کا مذہب سے کوئی واسطہ تھا اور نہ کسی قسم کی انتہا پسندی یا دہشت گردی چینیوں سے منسوب تھی تاہم کو رونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ سے دنیا بھر میں چینیوں سے لوگ اسی طرح دور بھاگ رہے ہیں جیسے ہر چینی خودکش بمبار ہو۔ گزشتہ ہفتے مجھے ملک سے باہر ایک عرب ریاست اور ایک مغربی ملک کا سفر کرنا پڑا اور سچی بات یہ ہے کہ مجھے چینیوں پر ترس آنے لگا۔ ہر ایئرپورٹ پر دیکھا کہ چینیوں کو چن چن کر تلاش اور پھر ایک الگ لائن میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ جہاں بھی دیکھا چینی بےچارے ماسک پہنے اور سر جھکائے ایسے الگ تھلگ کھڑے رہے کہ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ کوئی دوسری مخلوق ہوں۔ 

ہر ایئرپورٹ پر چینیوں کے لئے الگ ہدایات درج تھیں۔ اور تو اور پاکستان جسے چین کا اسرائیل سمجھا جا رہا تھا اور چند روز قبل یہ اعتراض اٹھایا جا رہا تھا کہ پاکستان میں چینی دندناتے پھر رہے ہیں، میں بھی ہوائی اڈوں پر چینیوں کے لئے خصوصی ہدایات کے بورڈز لگا دیے گئے ہیں۔ 

دورانِ سفر میں نے دیکھا ہر ملک میں امیگریشن پر ہر آنے والے مسافر سے پہلا سوال یہ پوچھا جاتا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران چین کا سفر تو نہیں کیا اور پھر پہلی فرصت میں پاسپورٹ کو اس غرض سے کھنگال لیا جاتا کہ کہیں مسافر چین کے سفر کو چھپا تو نہیں رہا۔ صرف یہ نہیں بلکہ دنیا کے کم و بیش تمام اہم ملکوں نے چین کے ساتھ اپنی پروازیں معطل کردی ہیں جبکہ تجارت میں بھی غیرمعمولی کمی آئی ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کتنا بڑا عذاب ہے۔ اس کے عظیم ترین عذاب ہونے کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ سعودی عرب کو نہ صرف عمرہ سروس معطل کرنا پڑی بلکہ حرم پاک کے گرائونڈ والے حصے میں طواف پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ متحدہ عرب امارات نے تو نمازِ جمعہ کے دوران خطبے کا دورانیہ بھی مختصر کر دیا اور مساجد کے اماموں سے کہا گیا کہ وہ نماز کے دوران مختصر تلاوت کیا کریں تاکہ لوگ جلدی فارغ ہوں۔

بدقسمتی سے پاکستان کورونا وائرس کے دو مراکز یعنی چین اور ایران کےدرمیان میں واقع ہے اور دونوں ممالک کے ساتھ جتنی زیادہ آمد و رفت پاکستان سے ہوتی ہے، دنیا کے کسی اور ملک سے نہیں ہوتی۔ 

یوں اگر اللہ نے ابھی تک پاکستان کو بڑے پیمانے پر اس وبا سے متاثر ہونے سے بچا رکھا ہے تو یہ اللہ کا خاص کرم ہے۔ چین میں پاکستان کی نسبت صحت کی سہولتیں بہترین ہیں جبکہ ان دونوں ممالک کے لوگ صحت کے معاملے میں پاکستانیوں کی نسبت زیادہ حساس بھی ہیں لیکن اگر ان کی یہ حالت ہو گئی تو خاکم بدہن پاکستان میں اس وبا کے پھیل جانے کے بعد پاکستان کی کیا حالت ہوگی؟ 

اس تناظر میں تو ضروری تھا کہ پاکستان میں وزیراعظم سے لے کر عام شہری تک ہر فرد دن رات اس وبا کے بارے میں متفکر ہوتا لیکن افسوس کہ حکمران نواز شریف کی صحت کے ایشو کو پاکستان کا سب سے بڑا ایشو بنا کر پوری قوم کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ میڈیا پر عورت مارچ کا غلغلہ ہے اور اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ درست ہے یا غلط جبکہ مذہبی لیڈروں کو کورونا کی وبا سے زیادہ عورت مارچ قومی صحت کے لئے مضر نظر آرہا ہے۔ 

کانپ اٹھتا ہوں جب اس صورتحال کو ذہن میں لاتا ہوں، جب خاکم بدہن پاکستان بھی چین اور ایران کی طرح کورونا وائرس کا شکار بن جائے۔ گزشتہ پندرہ بیس سال کے دوران باہر کے لوگ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کا رخ نہیں کر رہے تھے اور خدانخواستہ اب اگر دنیا کے ذہن پر کورونا وائرس رکاوٹ بن گیا تو ہمارے امیج کا کیا ہوگا؟ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے دنیا پہلے سے پاکستانی پاسپورٹ سے خوفزدہ ہے۔ اب اگر کورونا کی مصیبت بھی اس کے ساتھ مل گئی تو نجانے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ 

مغربی ترقی یافتہ ممالک ابھی مشکل سے پاکستانیوں کو ویزا دیتے ہیں اور اگر کورونا کا خوف بھی ساتھ مل گیا تو پھر کوئی کیونکر پاکستانیوں کو ویزا دے گا۔ پاکستانی کی برآمدات کا پہلے سے برا حال ہے اور یہ وبا ساتھ مل گئی تو پھر تو برآمدات کا اللہ ہی حافظ۔ 

ہمارے ہاں چین اور ایران جیسی صحت کی سہولتیں میسر ہیں نہ یہاں کی حکومت ان کی حکومتوں کی طرح تگڑی ہے اور نہ ہی یہاں کے سماجی اور سیاسی ساخت کی وجہ سے ہماری حکومت چین اور ایران جیسےاقدامات کر سکے گی؟ ہم مذہبی حوالوں سے بھی کبھی وہ اقدامات نہیں کر سکتے جو سعودی عرب اور یو اے ای کی حکومتوں نے کئے ہیں۔ اس لئے تباہی سے بچنے کے لئے ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ وزیراعظم سے لے کر عام پاکستانی تک اس وبا کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنے کے لئے کام کریں۔ 

سیاست ہو کہ صحافت ہر جگہ اس وبا کا تذکرہ ہونا چاہئے۔ جب تک خطرہ ٹل نہیں جاتا تب تک ہونا یہ چاہئے کہ جمعہ کے ہر خطبے میں علمائے کرام کا موضوع بھی یہی رہے۔ علمائے کرام سے یہ بھی درخواست ہے کہ ہر نماز کے بعد دعا میں کورونا وائرس کا تذکرہ ضرور کریں۔ آئیے سب اللہ کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ وہ ہمیں چین اور ایران بننے سے بچائے اور ان دو دوست اور پڑوسی ممالک کو بھی اس عذاب سے نجات دے۔ آمین!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔