08 مارچ ، 2020
بلوچستان کے معاشرے کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہ ایک روایتی اورقدامت پسند معاشرہ ہے، اس معاشرے میں خواتین گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔ ملک میں خواتین میں سب سے کم شرح خواندگی اسی صوبے میں ہے اور اگر بات ہو غیرت کے نام پر قتل کی تو اس کی شرح بھی کم وبیش بلوچستان میں زیادہ گردانی جاتی ہے مگر ان مسائل اور پسماندگی کے باوجود بلوچستان کےحوالے سے ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ یہی وہ صوبہ ہے جس کی خواتین کئی شعبوں میں رجحان ساز یعنی trend setter ہیں۔
ان خواتین میں نہ صرف عدلیہ بلکہ سیاست، تعلیم، سماجی خدمات، طب اور کھیل سمیت مختلف شعبے شامل ہیں، یہی نہیں بلکہ اب صوبے کی خواتین بیوروکریسی میں بھی آگے آ رہی ہیں۔
عدلیہ کی بات کی جائے تو بلوچستان کی سیدہ طاہرہ صفدر کو ملک میں ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔انہیں 1988میں بلوچستان کی پہلی خاتون سول جج ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،،،اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر بلوچستان کی خواتین کے لئے عدلیہ کے شعبے میں رجحان ساز یعنی Trend setter ہیں۔
جلیلہ حیدر نہ صرف صوبے بلوچستان بلکہ ملک میں انسانی اورسماجی حقوق کے حوالے سے جدوجہد کرنے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ وہ پیشے کےاعتبار سے ایک وکیل ہیں انہیں اپنی ہزارہ برادری کی پہلی خاتون وکیل ہونے کابھی اعزاز حاصل ہے۔جلیلہ حیدر ’وی دا ہیومین پاکستان‘ نامی غیرسرکاری تنظیم کی بانی بھی ہیں۔
حال ہی میں امریکا میں جلیلہ حیدر کو عالمی سطح پر باہمت ترین خاتون کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے جو بلوچستان کے لیے قابل فخر کی بات ہے۔
بلوچستان سے نمایاں نام محترمہ زبیدہ جلال کا ہے جو کہ تعلیم اور سماجی شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دینے کے بعد سیاست میں آئیں اور اپنی صلاحیتوں کا زبردست لوہا منوایا۔
محترمہ زبیدہ جلال نے اپنے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک اسکول کی بنیاد رکھی۔زبیدہ جلال 2002کےعام انتخابات میں اپنے آبائی علاقے کیچ / تربت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور پھر وزی رتعلیم بنیں اور اب 2018 کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وزیرمملکت دفاعی پیداوار کے منصب پر فائز ہیں۔
محترمہ زبیدہ جلال کو سماجی اور تعلیم کے شعبے میں زبردست خدمات پر صدارتی تمغہ امتیاز سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
محترمہ راحیلہ حمید خان درانی کو صوبائی اسمبلی میں پہلی خاتون اسپیکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے جن کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ راحیلہ حمیدخان درانی 24دسمبر کو بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر منتخب ہوئیں اس سے قبل وہ رکن صوبائی اسمبلی اور پراسیکیوشن کی وزیر کے طور بھی خدمات سرانجام دے چکی تھیں۔ یوں وہ پیشے کےاعتبار سے ایک وکیل ہیں لیکن وہ بطور عامل صحافی اور سماجی شعبے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوا چکی ہیں، انہی خدمات کی بناء پر انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
سیاست میں اندرون بلوچستان سے محترمہ روبینہ عرفان اور محترمہ شمع پروین مگسی کا نام بھی نمایاں ہے۔ دونوں خواتین صوبائی وزیر بھی رہیں اور محترمہ روبینہ عرفان اس وقت سینیٹ کی رکن بھی ہیں،اس کےعلاوہ ان کی خواتین کی کھیلوں بالخصوص فٹبال کےفروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسی طرح سماجی شعبے میں محترمہ روشن خورشید بروچہ کی بھی بےحد قابل تحسین خدمات ہیں، ایس او ایس چلڈرن ویلیج کی بانی اور دیگر مختلف فلاحی اداروں کی سرپرستی کی وجہ سے پارسی خاندان سے تعلق رکھنےوالی محترمہ روشن خورشید بروچہ کو بلوچستان کے سماجی شعبے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ صوبے سے سینیٹر کےعلاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں نگران وزیرکےطوربھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔
ڈاکٹر مصباح راٹھور کو بلوچستان کی پہلی سویلین فلائٹ سرجن ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کا تعلق ضلع کچھی / بولان کےعلاقے کولپور سے ہے۔
بلوچستان میں رجحان ساز خواتین میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر نور جہاں پانیزئی کا ہے۔ صوبے کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نور جہاں پانیزئی ملک کی پہلی خاتون تھیں جو ڈپٹی چئیرپرسن سینیٹ کے منصب پر فائز ہوئیں۔
یہ بلاشبہ بلوچستان کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ صوبے کی ایک خاتون کو ملک کےآئینی ادارے میں اتنا بڑا عہدہ ملا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کس خوش اسلوبی سے تقریبا تین سال یعنی مارچ 1991سےمارچ 1994 تک انہوں نے بطور ڈپٹی چئیرپرسن سینیٹ فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔ اس دوران انہوں نے کئی بار ایوان بالا کے سیشنزکی صدارت بھی کی۔
کھیلوں کی بات کی جائے تو بلوچستان میں کئی خواتین کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی نمایاں کارکردگی سے ملک و قوم کا نام روشن کیا، ان میں مارشل آرٹس میں اپنی صلاحیتوں سےسب کو حیران کردینے والی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی کلثوم ہزارہ، نرگس ہزارہ اور دیگر کا نام نمایاں ہے۔
یہی نہیں بلکہ اب بلوچستان کی خواتین سول بیوروکریسی کا بھی حصہ بن رہی ہیں، اگرچہ ان کی تعداد ابھی بہت کم ہے تاہم جو بھی ہیں وہ یہ ثابت کررہی ہیں کہ انتظامی معاملات اور نظم ونسق چلانے میں ان کی صلاحیتیں مردوں سے کسی طور کم نہیں۔
چند نمایاں بیوروکریٹس میں محترمہ سائرہ عطا، سائرہ آغا، نائمہ بتول، بتول جمعہ اسدی، ندا کاظمی، روحانہ گل کاکڑ ،عائشہ زہری اور اسی طرح دیگر چند شامل ہیں۔ بتول اسدی کو کوئٹہ کی پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر کا اعزاز حاصل ہے۔اسی طرح روحانہ گل کو کچھ عرصہ قبل پاکستان انٹیگرٹی آئیکون ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
بلوچستان ہی کی ایک بہادر بیٹی سائرہ بتول پاکستان کی ان چار بیٹیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے 2006میں فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور اپنے لئے ایک انتہائی مشکل شعبہ کا انتخاب کیا۔
اور اگر بات ہو صحافت کے شعبے کی تو اس میں بلوچستان میں گل فرزانہ اور شاہین روحی بخاری کو رجحان ساز خواتین صحافی کہاجاسکتا ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں اس شعبہ سے وابستہ ہوئیں کہ جب یہ مردوں کےلئے بھی ایک کٹھن کام تھا۔۔
یہ اور مختلف شعبوں میں بے لوث خدمات سرانجام دینے والی ان جیسی دیگر خواتین یقیناً بلوچستان کافخر اور سرمایہ ہیں، اس کےساتھ ساتھ یہ خواتین صوبے کی ترقی اورمسائل کےحل کےحوالے سے امید کی کرن اور صوبے کا روشن رخ بھی ہیں۔
بلوچستان میں ان خواتین اور دیگر کئی کو مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتے اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرتے دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔