محدود وسائل اور سیاسی اختلافات وزیراعلی بلوچستان کیلئےرکاوٹ نہ بن سکے

— تفتان قرنطینہ سینٹر 

بلوچستان ملک کا سب سے کم آبادی رکھنے والااور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ بلوچستان کو وہاں کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو اچانک کسی ہنگامی صورت حال سےنمٹنے کےلیے اس کے پاس موجود وسائل ناکافی ہیں۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اب تک بلوچستان میں عوام کی بڑی تعداد بنیادی سہولتوں سے محروم ہے ۔ ایسے میں کورونا جیسی عالمی وباء کا اثر پاکستان پر سب سے پہلے ایران کے ساتھ واقع سرحد تفتان کے ذریعے پڑا ۔ پاکستان سے ہزاروں زائرین ایران اور عراق کا سفر کرتے ہیں اوراس کے لیے تفتان بارڈرایک مصروف گزرگاہ ہے ۔ یہیں سے دونوں ممالک کے درمیان محدود تجارتی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔ایران میں کورونا وائرس نے زور پکڑا تو ہزاروں زائرین کو پاک ایران سرحد پر پہنچا کر پیغام دیا گیا کہ اپنے شہریوں کو وصول کریں جس کے بعد پاکستان نے بھی اپنے شہریوں کو واپس لینے کا عمل شروع کیا لیکن وفاقی حکومت فوری طور پر صورت حال کی سنگینی کا اندازہ نہ لگا سکی کہ کسی طرح ملک کے مختلف حصوں میں زمینی اور فضائی راستوں کے ذریعے پہنچنے والے زائرین وباء کے پھیلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

— تفتان قرنطینہ مرکز کی تصویر
— فوٹو راقم الحروف

بلوچستان حکومت تیار نہ ہونے کے باوجود اپنے محدود وسائل سے اس کام میں مصروف ہوگئی لیکن اتنی بڑی تعداد میں زائرین کی مکمل دیکھ بھال اور احتیاطی تدابیر اختیار کرانا آسان کام نہ تھا ۔

بلوچستان کے موجودہ وزیراعلی جام کمال اچھی شہرت کے مالک ہیں ۔ وہ سیاسی اختلافات کے باعث شاید بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی اتنی حمایت نہ رکھتے ہوں لیکن ان کی اپنی شخصیت اور کردار بلوچستان اور ملک بھر میں قابل احترام سمجھا جاتا ہے ۔ عام لوگوں کو اپنے مسائل سے زیادہ دلچسپی ہے لیکن یہ مسائل برسوں کے ہیں ۔وزیراعلی بلوچستان نے اس وباء کے دور میں جو کوششیں کی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے اگر انہیں مکمل سپورٹ مل جائے تو وہ بلوچستان کو بہتر انداز میں ترقی کی جانب لے جاسکتے ہیں ۔

وزیراعلی بلوچستان جام کمال کہتے ہیں کہ تفتان سے آنے والے زائرین کو صرف اس لیے اپنے پاس رکھا کہ یہ مرض ملک کے دیگر علاقوں میں نہ پھیلے۔ یہ کوئی منظم آبادی والا علاقہ نہیں بلکہ ایک سرحدی علاقہ ہے جہاں محدود عملہ اور محدود انفرااسٹرکچر تھا ۔ ایسے میں فوری طور پر عارضی خیموں میں تھکے ہارے زائرین کو ٹھہرایا کہ وہ سانس لے سکیں اور کچھ سکون پاسکیں ۔

— کورونا کے حوالے سے خواتین کو بھی آگاہ کیا گیا۔
— بلوچستان میں آگاہی مہم کے دوران لی گئی ایک تصویر

جام کمال کا کہنا ہے کہ تفتان بارڈر کی صورت حال پر باتیں کی گئیں، مجھے سیاستدانوں، تجزیہ نگاروں ، اینکروں کے رویے پر انتہائی افسوس ہوا کہ انہوں نے چھوٹے صوبے کے محدود وسائل کو سمجھے بغیر مذاق اڑایا،ہمارے محدود وسائل کے باوجود انتھک محنت اور کاوشوں کو نظر انداز کر کے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تفتان آکر دیکھتے تو اس جگہ ہزاروں لوگوں کو کیسے سنبھالا جاسکتا ہے جہاں بیابان میں انفرااسٹرکچر اور عملہ بھی محدود ہو ۔

جام کمال کے مطابق ایسے میں بلوچستان حکومت نے بلا تفریق اپنے محدود وسائل سے کام کا آغاز کیا اور وفاق نے بھی شاید اتنی جلدی وسائل فراہم نہ کیے ہوں لیکن ہم نے اپنے طور پر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا ، پورے ملک سے ایران جانےوالے زائرین کو مشکل حالات میں کم از کم بغیر کسی سپورٹ کے وہاں سنبھالا ،عارضی خیمے ہی اس وقت واحد حل تھا ۔ابتداء میں تین سے پانچ ہزار خیمے لگا کر زائرین کو ٹھہرانا بھی آسان کام نہ تھا ۔

— وزیراعلیٰ جام کمال ایک سینٹر کا دورہ کرتے ہوئے۔

جام کمال کہتے ہیں کہ طبی عملہ جس کے پاس مطلوبہ سامان، سہولتیں اور انفراسٹرکچر ہی نہ تھا ، اس نے بھرپور جذبے سے کام کیا گیا، میرے بلوچستان کے سرکاری افسران، عملے ، ڈاکٹروں ، طبی عملے نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا دن رات کی پرواہ کیے بغیر گھنٹوں کام کیا اس لیےان ہیروز کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

یہ مشاہدہ بھی سامنے آیا کہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال مستقل صوبے کے اضلاع کا دورہ کرتے رہے اور وہاں سہولتوں کی فراہمی اور انتظامی امور کا خود جائزہ بھی لیتے رہے، بلوچستان کے انفرااسٹرکچر ، لوگوں کی جدید خطوط پر تربیت اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت کو اس محدود عرصے میں بڑھایا گیا ہے لیکن یہ معاملہ اب رکنا نہیں چاہیے کیونکہ بلوچستان معدنیات کے ساتھ جغرافیائی اہمیت بھی رکھتا ہے پاکستان کے ساتھ کئی ممالک کی سرحدیں اس صوبے سے ملتی ہیں۔ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے منصوبے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اس لئے اس کی ترقی ملک کی ترقی سے وابستہ ہے ۔

مزید خبریں :