یہ رشتہ سب کو قبول

— فائل فوٹو

کہتے ہیں جوڑیاں آسمانوں پر بنتی ہیں لیکن پھر بھی کہیں رشتہ طے ہو رہا ہو تو سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے۔ خاندان میں کئی لوگ الگ الگ طرح کے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ دونوں ہم مزاج نہیں اس لیے جوڑی نہیں چل سکے گی یا پھر بیک گراؤنڈ چیک کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ خاندان والے ہی پسند نہیں۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں۔ 

ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کوئی جوڑ ایسا ہو جو ایک ہی نظر میں سب کو بھا جائے۔ اسی قسم کا جوڑ سینیٹر شبلی فراز اور عاصم باجوہ کا ہے جس کو اپوزیشن سے لے کر میڈیا اور حکومت کے اپنے وزرا، سب نے دل و جان سے قبول کیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ جوڑی حکومت کے لیے ایک مثبت بیانیہ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ پچھلے وزراء نے میڈیا کےخلاف جو محاذ کھڑا کیا ہے اس میں بھی کمی لا سکے گی یا نہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان شروع ہی سے میڈیا کے معاملے میں بڑے حساس ہیں۔ جب اپوزیشن میں تھے تب بھی اوراب جب وزیراعظم ہیں تب بھی۔ فرق یہ ہے کہ پہلے وہ میڈیا کو اپنی طاقت سمجھتے تھے لیکن اقتدار میں آتے ہی میڈیا کی آزادی ان کو کھلنے لگی۔ کسی بھی پچھلے حکمران کی طرح برسر اقتدار آتے ہی عمران خان بھی سسٹم میں رچ بس گئے ہیں۔

پہلے تو خان صاحب کو میڈیا کے ایک خاص حصے سے مسئلہ تھا لیکن جیسے جیسے میڈیا حکومتی ناکامیوں کو بے نقاب کرتا گیا خان صاحب کی ناراضی بڑھتی چلی گئی۔ حال ہی میں یو ٹیوبرز سے ایک ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے مین سٹریم میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام 2010 تک میڈیا اینکرز کو دیکھنا چاہتی تھی اور اس کا ثبوت ان کی ریٹنگز سے واضح تھا لیکن اس کے بعد سے ان کا زوال شروع ہو گیا۔

 ان کے مطابق جو میڈیا چینلز سچ اور حق کو عوام تک پہچانے کے بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے شوز کرتے ہیں ان کو عوام پہچان لیتی ہے اور سننا نہیں چاہتی۔ جنوری میں عالمی اقتصادی فورم پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے یہ بھی الزام لگایا کہ میڈیا اکثر اپنی لائن کراس کر دیتا ہے اور جتنی آزادی میڈیا کو پاکستان میں میسر ہے وہ کسی جمہوریت میں نظر نہیں آتی۔ 

حکومتوں اور میڈیا کے تعلقات ہمیشہ سے ہی تلخ رہے ہیں لیکن اس وقت میڈیا اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ چاہے وہ چینلز کو آف ائیر کرانا ہو، کسی اپوزیشن رہنما کا انٹرویو رکوانا ہو، اخباروں کی تقسیم میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہو یا پھر میڈیا ہاؤسز کے اشتہارات روکنا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ جتنے میڈیا مخالف اقدامات تحریک انصاف کی اس دو سالہ حکومت میں نظر آئے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے اس قلیل عرصے میں ہزاروں میڈیا ملازمین بے روزگار ہو چکے ہیں۔ “فریڈم نیٹورک “ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافت کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی سالانہ رپورٹ میں گلوبل پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کا نمبر ۳ پوائنٹ سے گر کر 145 پر آ گیا ہے۔

میڈیا سے اس جنگ کی سربراہی ، حکومت کی طرف سے وزیر اطلاعات کے سپرد کی گئی۔ وزیراطلاعات کا مشکل ترین کام، اپنی حکومت کی ناکامیوں کا میڈیا اور اپوزیشن کے سامنے دفاع کرنا ہے۔ اس کام کی ذمہ داری جب فواد چوہدری کو دی گئی تو جہاں ایک طرف انہوں نے اپنی حاضر جوابی اور بے باکی سے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا وہیں دوسری طرف ان کے سخت لب و لہجے، بے جا پنگوں اور بدلحاظی کے نتیجے میں میڈیا کے ساتھ ایک محاذ آرائی شروع ہو گئی جس سے حکومت اور میڈیا کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے۔

آخر کار ان کو اپنی ہی حکومتی میڈیا ٹیم سے اختلافات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی چھٹی کر کے فردوس عاشق عوان کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ سخت زبان اور اپنے جارحانہ رویے کی وجہ سے وہ خان صحاب کا انتخاب تھیں لیکن انہی دو باتوں کی وجہ سے وہ میڈیا یا اپوزیشن سے تعلقات استوار نہیں کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ وہ کسی بھی فورم پر حکومت کا بیانیہ بنانے میں ناکام رہیں۔ شروع ہی سے ان کی تقرری سے حکومتی وزراء ناخوش تھے اور اعتراضات اٹھاتے تھے کہ وہ پارٹی کا فیس نہیں۔ آخر کار فواد چودھری کی طرح ان کو بھی اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ٹھوکر کھانی پڑی۔ ان دونوں شخصیات نے حکومت اور میڈیا کے درمیان عدم اعتماد کا گڑھا بھرنے کے بجائے اسے مزید گہرا کر دیا۔

جنرل (ر) عاصم باجوہ (دائیں) اور شبلی فراز (بائیں)— فائل فوٹو

یہ حقیقت ہے کہ حکومتی وزرا اور ترجمانوں کا سخت لب و لہجہ اور جارحانہ انداز وزیر اعظم کو پسند ہے لیکن اس دفعہ کے یو ٹرن نے سب کو حیران کر دیا۔ نرم لہجہ اور دوستانہ رویہ رکھنے والے سینیٹر شبلی فراز صحاب کو وزیر اطلاعات مقرر کر دیا اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ جو میڈیا میں اپنے بہترین تجربے اور اینکرز کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات منتخب کیے گئے۔

کرکٹ کے دنوں سے ہی عمران خان خود کو ٹیم بنانے کے ایکسپرٹ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس تقرری کے بعد شاید یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ ان کے اس ٹیلنٹ کا اعتراف مخالف ٹیم بھی کر رہی ہے۔ میڈیا ٹیم میں اس 180 ڈگری کے ردوبدل سے امید ہے کہ خان صاحب اپنی میڈیا پالیسی بھی بدلیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ میڈیا سے لڑائی حکومتی ناکامیوں کو نہیں چھپا سکتی لہٰذا ایک خوشگوار اور آزادانہ صحافت کی فضا پیدا کرنا ہی سمجھداری ہے۔ ان کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی جنگ میں فرنٹ لائن سپاہی جتنا بھی پر جوش اور محب وطن کیوں نہ ہو بغیر ہتھیار کےوہ اپنے وطن کا بھرپور دفاع نہیں کر سکتا۔

اور یہاں وزیراعظم کا ہتھیار میڈیا پر بندشیں نہیں بلکہ حکومتی کارکردگی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔