31 اگست ، 2012
کراچی … رپورٹ/ افضل ندیم ڈوگر … شہریوں کو مشکلات سے بچانے اور سہولیات کی فراہمی کیلئے کراچی کی انتظامیہ ہر سال قوم کے اربوں روپے خرچ کرتی ہے مگر شہر میں ممکنہ بارشوں کا پانی سڑکوں سے نکالنے کیلئے شہری حکومت شاید پتھر کے دور کی طرف لوٹ رہی ہے۔ کراچی کے ریڈ زون میں ایوان صدر روڈ سے گزرا جائے تو رینجرز ہیڈ کوارٹر کے سامنے فٹ پاتھ پر مختلف مشینری کے ساتھ بیٹھے ہوئے کئی درجن افراد کو دیکھ کر کسی کام کے متلاشی افراد کے بیٹھے ہونے کا گمان ہوتا ہے ۔ مگر نہیں! سرخ جیکٹس پہنے یہ افراد شہری حکومت کے ملازم ہیں جو محکمہ موسمیات کی جانب سے اس اہم شارع سے بارش کا پانی ہاتھوں سے نکالنے کیلئے ہنگامی ڈیوٹی پر آتے ہیں۔ گزشتہ 2 ماہ کے دوران محکمہ موسمیات نے بارش ہونے کی کئی پیشگوئیاں کیں بارش تو نہ ہوئی پر شہری حکومت کے رین ایمرجنسی پلان کے تحت یہ ملازمین ہنگامی ڈیوٹی پر دن بھر بیٹھ بیٹھ کر مکھیاں مارتے رہے۔ شہر کے اولڈ سٹی ایریا کے بیشتر علاقے کئی دہائیوں سے ہر بارش کے بعد نکاسی آب کے نامناسب انتظامات کے باعث ندی نالوں اور دریاوٴں کا منظر پیش کرتے دیکھے گئے ہر سال شدید بارشوں کے بعد شہر کو آئندہ ایسی صورتحال سے بچانے کیلئے انتظامیہ کی جانب سے خطیر رقوم خرچ کی جاتی رہیں مگر ہر اگلے سال میں ہونے والی بارشیں انتظامیہ کے ڈھول کے پول کھولتی رہیں، ہر آنے والا سال شہریوں کو نئی آزمائشوں سے دوچار کرتا رہا۔ چند سال قبل شدید ترین بارشوں نے شہری زندگی کئی ہفتے تک مفلوج رکھی، حکومت اور انتظامیہ نے سڑکوں کی جدید طریقے سے تعمیر اور نکاسی آب کے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے کئے ماضی قریب میں صفائی کے نام پر کروڑوں روپے شہر کے ندی نالوں اور سیوریج لائنوں میں بہا دیئے گئے، لیکن نتیجہ صفررہا۔ اب جبکہ بارشیں عین سر پر ہیں تو دنیا کے چند بڑے اور ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں شامل روشنیوں کے شہر کراچی میں شہری حکومت شاید پتھر کے دور کی طرف لوٹ رہی ہے۔ نکاسی آب اور نالوں کی صفائی پر اگر حقیقت میں کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تو سڑکوں سے بارش کا پانی نکالنے کے دہائیوں پرانے یہ انتظامات کیوں۔؟ کیا دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی آج کے جدید دور میں خودکار انتظامات کی بجائے افرادی قوت سے وائپرز، بالٹیوں یا ٹریکٹر پمپس کے ذریعے بارشوں سے نمٹا جاتا ہے۔ حکومت کے ارباب و اختیار کیلئے اس سوال کا جواب دینا شاید مشکل ہو مگر اس امر پر سوچ بچار کے بعد آئندہ کیلئے حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔