خود کو چھلنی سے گزار کر دیکھیں

فوٹو: فائل

''سوچنا ایک مشکل کام ہے، اِس لیے لوگ بنا سوچے ہی دوسروں کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں‘‘، کارل یونگ۔

کچھ سال پہلے تک میں بھی یہی کرتا تھا، کسی کا لباس دیکھ کر رائے بنا لیتا تھا، کسی کا حلیہ دیکھ کر ذہن میں مفروضہ قائم کر لیتا تھا اور کسی کی شکل پسند نہیں آتی تھی تو اُس سے خدا واسطے کا بیر پال لیتا تھا۔ اب میں نے کسی حد تک اپنا ’’علاج‘‘ کر لیا ہے سو اب میں کسی کے بارے میں بھی، مثبت یا منفی، کوئی رائے قائم نہیں کرتا تاوقتی کہ وہ شخص اپنا آپ آشکار نہ کردے۔ تاہم انسانوں پر بہت سوچ سمجھ کر کچھ ’’فلٹر‘‘ بہرحال لگائے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے انہیں ’’جج‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ 

سب سے پہلا فلٹر اچھائی کا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر پرہیزگاری اور تقوٰی جیسے بھاری بھرکم الفاظ استعمال نہیں کیے کیونکہ اگر ہم لوگوں کو اتنی باریک چھلنی سے گزارنا شروع کریں گے تو ہمارا اپنا گزرنا ناممکن ہو جائے گا۔ 

اچھائی کا وہ فلٹر لگائیں جس سے صرف یہ پتا چل سکے کہ بندے میں کوئی بڑی خرابی تو نہیں، جیسے گاڑی خریدتے وقت ہم چھوٹے موٹے ڈینٹ یا خراشیں نظر انداز کرکے پوچھتے ہیں کہ کہیں اِس کا بڑا ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا یا اِس کا انجن تو نہیں کھلا، اسی طرح انسانوں میں بھی چھوٹی برائیاں نظر انداز کرنی چاہئیں۔

 صرف موٹی بات دیکھنی چاہیے کہ بندہ اپنے معاملات میں عمومی طور پر شفاف ہے یا ہر بات میں ہیرا پھیری اُس کا وطیرہ ہے، بوقتِ مجبوری کوئی بےضرر سا جھوٹ بول لیتا ہے یا عادتاً دورغ گو ہے، بد عہدی اُس کی سرشت میں ہے یا بھول چوک ہو جاتی ہے۔ یہ بنیادی فلٹر ہے، اِس سے گزرنا لازمی ہے۔ دوسری چھلنی نظریات اور افکار کی ہے۔ ہر انسان کو اِس بات کا حق ہے کہ وہ جیسے چاہے نظریات اپنائے، شرط صرف یہ ہے کہ وہ خود بھی اُن نظریات کی عملی تصویر ہو، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پاکستان میں تو شریعت کے نفاذ کے داعی ہوں اور خود امریکہ کے کسی شراب خانے میں بیٹھ کر غم غلط کرتے ہوں۔ جن نظریات پر آپ کا یقین ہے اگر وہ آپ کی اپنی زندگی میں سرے سے ہی غائب ہیں تو پھر آپ اِس چھلنی سے نہیں گزر سکتے۔

لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کہیں وہ عاجزی کے پردے میں متکبر تو نہیں یا انہیں پارسائی کا خبط تو نہیں۔ کوئی بھی شخص خود کو متکبر نہیں کہتا، یہ بات اُس کی عادات سے پتا چلتی ہے، اگر وہ زعمِ تقوٰی میں مبتلا ہے، اپنی کہی ہوئی بات کو حرفِ آخر سمجھتا ہے یا اسے اپنی ذات میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی تو سمجھ لیں کہ وہ نرگسیت کا شکار اور متکبر ہے۔ 

اِس مرض کا علاج بہت مشکل ہے کیونکہ مریض کو کبھی اپنی اِن علامات کا پتا نہیں چلتا اور کوئی دوسرا اسے بتانے کی ہمت نہیں کرتا۔ ایسے شخص کو بےشک رعایتی نمبر دے کر چھلنی سے گزار دیں بشرطیکہ وہ باقی ماندہ فلٹرز میں سے صحیح سلامت گزر جائے۔ ایک چھلنی تعصبات کی بھی بنا لیں، جو لوگ اپنی زندگی میں تعصبات سے جان نہیں چھڑا پاتے اُن کے بارے میں مثبت رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ 

یہ تعصبات کسی بھی نوعیت کے ہو سکتے ہیں، اگر کوئی شخص آج کے زمانے میں بھی لوگوں کو اُن کی نسل، مذہب، علاقے، زبان یا جنس کی بنیاد پر دانا یا احمق سمجھتا ہے تو وہ قابلِ ستائش نہیں، ایسے لوگوں کو صرف اُس صورت میں رعایتی نمبر مل سکتے ہیں اگر وہ دلیل سننے پر آماد ہ ہوں، اگر ایسا شخص عقلی بات سننے پر تیار ہی نہیں اور اپنے ذہن کو تالے لگا کر بیٹھا ہے تو اُسے چھلنی سے گزارنے کی ضرورت نہیں، اُس کے ذہن کے لیے پہلے کسی چابی کا بندو بست کریں۔

اگلا فلٹر منطق اور دلیل کا ہے اور شخصی کردار سےجڑا ہے۔ یہ سب سے اہم ہے، اسے میں عموماً صاحبِ اختیار لوگوں یا ایسے بندوں پر لگاتا ہوں جن کی بات بڑے پیمانے پر سنی جاتی ہے، انہیں آپ طاقتور حکمران سمجھ لیں یا پھر بااثر صحافی، دانشور یا کوئی بھی ایسی سلیبریٹی کہہ لیں جن کے پرستار لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ 

اِن لوگوں کو ’’جج‘‘ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ اِن کی بات منطقی اعتبار سے درست ہے یا نہیں، عقل میں سماتی ہے یا حقائق کے بر خلاف ہے، کہیں یہ لوگ مقبولِ عام بیانیے کی لکیر ہی تو نہیں پیٹ رہے، تاریخی اعتبار سے یہ اِن کا موقف کتنی مرتبہ درست یا غلط ثابت ہو چکا ہے اور غلط ثابت ہونے پر کیا وہ دوبارہ اسی لائن پر چل رہے ہیں یا انہوں نے اپنے رویے اور افکار میں کوئی بنیادی اور واضح تبدیلی کی ہے؟ 

اِس چھلنی میں سے لوگوں کو گزارنا آسان کام نہیں کیونکہ ہر شخص مختلف انداز میں سوچتا ہے اور کوئی بھی یہ تسلیم نہیں کرتا کہ اُس کی سوچ غلط ہے، زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی بداعمالیوں اور بدنیتی کی بنیاد پر گھڑے ہوئے بیانیے کا جواز موجود ہوتا ہے جس پر وہ صدق دل سے یقین بھی رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ضمیر کو افیون کی ڈوز دے کر سلایا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان وقت کے ساتھ سیکھتا ہے اور اُس سے فیصلے کی غلطی بھی ہو سکتی ہے مگر اِن باتوں کی رعایت اُس صورت میں دی جا سکتی ہے اگر ایسا شخص دوبارہ وہی غلطی نہ دہرائے اور پھر اسی مقام پر نہ آکھڑا ہو جہاں سے اُس نے آغاز کیا تھا۔ آج سے کچھ سال پہلے اگر کوئی شخص کسی گناہ میں شریک جرم تھا تو پہلے اُس گناہ کا اعتراف کرے اور آئندہ وہی گناہ نہ کرنے کا وعدہ کرے تو اسے چھلنی سے گزارا جا سکتا ہے، ورنہ اُس کی بات میں کوئی دم نہیں۔

یہ تمام فلٹر لگانے کے بعد ایک بیلنس شیٹ بنائیں اور لوگوں کے مثبت اور منفی پہلو اُس میں جمع کریں، اگر کسی شخص کی بیلنس شیٹ کا اثاثوں والا خانہ واجبات کے مقابلے میں بھاری ہو تو ایسے شخص کو اپنی مثبت بندوں کی فہرست میں شامل کر لیں اور باقیوں سے جان چھڑا لیں۔

کالم کی دُم: سب سے پہلے یہ تمام فلٹر اپنی ذات پر لگا کر دیکھیں، کہیں ایسا نہ ہو میری طرح آپ بھی فیل ہو جائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔