Time 31 مئی ، 2020
بلاگ

کاک پٹ کے قصے

فوٹو: فائل

رات کافی گہری ہوچکی تھی پی آئی اے کی فلائٹ بیجنگ میں چند گھنٹے ٹھہرنے کے بعد اب ٹوکیو کے لیے رواں دواں تھی ،میری سیٹ اکانومی پلس میں تھی جو بزنس کلاس کے بالکل پیچھے ہی ہوا کرتی ہے۔

فلائٹ میں جاپانی ایئر ہوسٹس بڑے انہماک سے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں ،مسافروں کو کھانا اوراس کے بعد چائے کافی فراہم کرنے کے بعد جہاز میں اندھیرا کردیا گیا تھا تاکہ مسافر آرام کرسکیں ، میں نے بھی آنکھیں بند کرلیں تاکہ کچھ آرام کیا جاسکے ، اچانک بزنس کلاس سے آنے والی گرجدار آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔

بزنس کلاس میں اس وقت جہاز کے کپتان موجود تھے جو ایک جاپانی ایئر ہوسٹس سے بات چیت میں مصروف تھے اور اسی وقت ایک پاکستانی ایئرہوسٹس نے وہاں سے گزرنے کی کوشش کی تو کپتان صاحب نے اسے ڈانٹ کر واپس پچھلے اکانومی کیبن میں جانے کا کہا۔

پاکستانی ایئرہوسٹس تو منہ بناتی ہوئی اور بڑبڑاتی ہوئی پیچھے موجود کیبن کی جانب چلی گئی لیکن میرے اندر چھپی صحافت جاگ چکی تھی ، میں جاننا چاہتا تھا کہ بزنس کلاس میں کیا ہورہا ہے ،مجھے معلوم تھا کہ بزنس کلاس میں کوئی مسافر نہیں تھا ، بالکل خالی تھی ،میں نے ہلکے سے پردہ سرکانے کی کوشش کی تو وہ لاک تھا۔

اسی اثنا میں مجھے جاپانی ایئر ہوسٹس کی آواز سنائی دی ،دامے ، یعنی نہیں ، یہ آواز نارمل سے زیادہ تیز تھی یعنی جاپانی ایئر ہوسٹس کپتان صاحب کو کسی بات سے منع کررہی تھی، میں نے کچھ انتظار کیا لیکن ایک بار پھر جاپانی ایئر ہوسٹس کی آواز سنائی دی ، دامے دامے ، یعنی نہیں نہیں ،بس پھر میں نے مزید انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا ،کھڑا ہوا ،بزنس کلاس کے پردے کا لاک کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔

کپتان صاحب کو بالکل توقع نہیں تھی کہ کوئی اکانومی کلاس کامسافر بغیر اجازت بزنس کلاس میں داخل ہوجائے گا، میں نے دیکھا کپتان صاحب بزنس کلاس کی ایک سیٹ پر تشریف فرما ہیں اور جاپانی ایئر ہوسٹس کو زبردستی برابر والی سیٹ پر بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ،جس پر وہ دامے دامے یعنی نہیں نہیں کرکے کپتان کی خواہشات کے خلاف مزاحمت کررہی تھی۔

 یہ کیا ہورہا ہے ؟ آپ یہاں کیا کررہے ہیں اور جہاز کون چلارہا ہے ؟ میری گرجدار اور غصے میں بھری ہوئی آواز نے کپتان صاحب کو حواس باختہ کردیا، وہ ایک دم کرسی سے کھڑے ہوگئے اور مجھ پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہوئے بولے آپ یہاں کیا کررہے ہیں ؟جس پر میرے سخت جواب میں وہ دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے مجھ سے اور اس لڑکی سے معذرت خواہ ہوئے اور کاک پٹ میں واپس چلے گئے۔

جہاز میں عملے کو واقعے کی خبر ہوچکی تھی لیکن مجھ سے درخواست کی گئی اور میں نے خاموشی اختیار کرلی ، 8 سال قبل یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت جاپانی خواتین پی آئی اے میں بطور فضائی میزبان ملازمت کرتی رہی تھیں۔

پھرچند برس قبل میرے ساتھ ہی پیش آنے والے واقعے سے دنیا واقف ہے جب جاپان سے اسلام آباد براستہ بیجنگ جانے والی پی آئی اے کی پرواز میں کپتان صاحب بزنس کلاس میں میرے برابراوالی نشست پر بیٹھی دو شیزہ کو بہلا پھسلا کر کاک پٹ میں لے گئے اور اپنے معاون کپتان کو کاک پٹ سے باہر بھیج دیا اور اگلے 3 گھنٹے وہ چینی دوشیزہ کاک پٹ میں ہی رہی اور مسافروں کی زندگی داؤ پر لگی رہی۔ 

میں نے اس پورے واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کر لی اور پھر جیو نیوز کے ذریعے پوری دنیا نے یہ واقعہ دیکھا اور کپتان صاحب کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے، ایسا نہیں ہے کہ قومی ادارے کے تمام کپتان برے ہیں بہت ذہین اور ایماندار اور دیندار کپتان بھی اس ادارے کا حصہ ہیں جن پر نہ صرف ادارہ بلکہ قوم بھی فخر کرسکتی ہے۔

اسی طرح ایک بار جاپان سے کراچی جانے والی ایک فلائٹ میں ایک پاکستانی اپنی جاپانی گرل فرینڈ کو بغیر شادی کے پاکستان لے جارہا تھا، ایک عالم دین نے جب یہ منظر دیکھا تو اسے سمجھایا ، لڑکی کو بھی بتایا کہ بغیر شادی کے اس طرح پھرنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔

کچھ ہی دیر بعد لڑکی نے کلمہ پڑھا ، مولانا نے جہاز میں ہی جاپانی لڑکی اور پاکستان لڑکے کا نکاح پڑھا یا، جہاز کے کپتان کو معلوم ہوا کہ ان کے جہاز میں ایک لڑکی مسلمان اور اس کا نکاح ہوا ہے تو انھوں نے بڑی خوشی کے ساتھ کاک پٹ سے ہی اس خوشی کی خبر کا اعلان کیا اور تمام مسافروں سے نو مسلم خاتون کو مبارکباد کے لیے تالیاں بجائیں جبکہ جہاز میں چھوارے بھی تقسیم ہوئے۔

ایسے بہت سے واقعات کا مشاہدہ دوران سفر ہوتا رہتا ہے تاہم گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والا سانحہ انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہے کیونکہ یہ 90 سے زائد اموات نہیں ہیں بلکہ 90 سے زائد خاندان تباہ ہوئے ہیں اللہ کرے اس میں کپتان کی غلطی نہ ہو ورنہ لوگوں کا قومی ایئر لائن سے فضائی سفر کرنے پر اعتماد ختم ہوجائے گاجبکہ قومی ایئر لائن کو بھی کپتان کے لیے میرٹ کو سخت سے سخت کردینا چاہیے تاکہ مسافروں کی زندگی اور ادارے کی املاک کو محفوظ ترین بنایا جاسکے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔