08 جون ، 2020
کورونا انسانی تاریخ کی پہلی وبا ہے نہ آخری۔ جلد ہی ہم اس سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر جو وبا ہمارے معاشرے کو برسہا برس سے لاحق ہے اس کی دوا ہے کیا؟
لاہور جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھاٹی چوک، داتا دربار، موہنی روڈ، بلال گنج، مچھلی منڈی، پاپڑ منڈی، پیر مکی بازار اور اس کے آس پاس سڑک کنارے بیشمار حکیم فٹ پاتھ پر ’’سانڈھے کے خالص تیل‘‘ کی شیشیاں سجائے نظر آتے ہیں اور بظاہر بھلے چنگے دکھائی دینے والے کئی نوجوان ان حکیموں سے مستفید ہونے کی خواہش لیے منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
گرم صحرائی علاقوں اور ریگستانوں میں رینگتے اس معصوم اور بےضرر جانور کو پکڑتے ہی اس کی کمر کی ہڈی توڑ دی جاتی ہے تاکہ یہ بھاگ نہ سکے۔ سڑک چھاپ حکیم گاہک کو اپنی ایمانداری کا یقین دلانے کے لیے زندہ سانڈھے کا پیٹ چاک کرکے اس کی چربی نکالتے ہیں اور اسے پگھلا کر تیل نکال کر شیشی میں ڈال دیتے ہیں۔
خریداروں کو یقین ہے کہ یہ تیل جادوئی اثرات کا حامل ہے اور اس سے ناصرف مردانہ کمزوری دور ہو جاتی ہےبلکہ گنٹھیا اور جوڑوں کا درد بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی غلط فہمیاں وادی ہنزہ اور گلگت کے علاقوں سے ملنے والی سلاجیت کے بارے میں ہیں۔
آپ کسی یورالوجسٹ سے پوچھ لیں، کیمیائی تجزیہ کروا لیں، نہ تو سانڈھے کی چربی میں کوئی غیرمعمولی بات ہے نہ ہی سلاجیت میں کوئی جادوئی طاقت ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے کا ہر فرد حکیم اور طبیب ہے۔ آپ کسی سے اپنی بیماری کا ذکر کریں یا کوئی مسئلہ بیان کریں، کوئی یہ نہیں کہے گا کہ متعلقہ معالج سے رجوع کریں، ٹیسٹ کروائیں اور پھر مرض کی تشخیص ہونے کے بعد اس کا علاج کریں، آپ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی مفت مشوروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
فلاں حکیم بہت سیانا ہے، اسپتال نہ جانا، مرض مزید بگڑ جائے گا، ان ڈاکٹروں کو کیا پتا، میری سالی کو بھی شوگر تھی، بابا جی کے پاس لے گئے، وہ پہلے میٹھا کھلاتے ہیں اور پھر علاج کرتے ہیں، صاحب جی! لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔
چند روز قبل میری ہمشیرہ اور بہنوئی کا حادثہ ہوا۔ دیگر چوٹوں کے علاوہ بڑی بہن کا بازو فریکچر ہو گیا۔ اسپتال داخل ہونے کے بعد بھی پُرخلوص مشوروں سے جان نہیں چھوٹی۔ جو خواتین و حضرات عیادت کرنے آتے، نہایت دردمندی اور خلوص سے یہی مشورہ دیکر جاتے کہ آرتھوپیڈک سرجن تو بس پیسے بٹورتے ہیں، ہماری مانیں تو فلاں جراح اور پہلوان سے رابطہ کریں۔
ایک ہی جھٹکے میں ہڈی جڑ نہ جائے تو پھر کہنا۔ اگر ان دعوئوں میں رتی بھر صداقت ہے تو پھر اسپتالوں سے آرتھوپیڈک وارڈ ختم کر دینے چاہئیں بلکہ صرف یہ وارڈ ہی کیوں، اسپتالوں پر اس قدر بھاری رقوم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب مطب، دواخانوں، شفا خانوں میں بیٹھے حکیم، طبیب اور جراح علاج کی سہولتیں نہایت کم پیسوں میں مہیا کر سکتے ہیں تو پھر اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے ناز نخرے اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیبارٹریوں میں مہنگے ٹیسٹ کیوں کروائے جائیں؟
کورونا آیا تو ان حکیموں اور اطبا کی نہ صرف ایک بار پھر چاندی ہو گئی بلکہ ان کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہو گیا۔ آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو وہاں کورونا سے بچاؤ کے نسخوں کی بہتات ہے۔
پیاز، ادرک، لہسن، گرم پانی سے شروع ہونے والے نسخے گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے بلاناغہ دہی کے دو چمچ کھائیں اور کورونا کو بھول جائیں۔ پھر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا تو خواہ مخواہ پریشان ہے ورنہ کورونا کا علاج تو لیموں کے رس سے ہو سکتا ہے۔
سادہ لوح افراد ان نسخوں پر غور کر رہے ہوتے ہیں کہ نیا علاج دریافت ہو جاتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ثنا مکھی نامی پودے کے پتے پانی میں اُبال کر پئیں تو کورونا آپ کے قریب نہیں آسکے گا۔ چلیں چھوڑیں یہ سب، مارکیٹ میں ایک نیا نسخہ آگیا ہے۔ نیم کے پتے، لیموں کے بیج اور تھوڑی سی کلونجی کو ایک چمچ شہد میں مکس کرکے استعمال کرلیں، آپ کی قوتِ مدافعت میں بےپناہ اضافہ ہو جائیگا اور کورونا سمیت کوئی بیماری آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔
صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں ایسے ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں جو آپ کو گھر پر سینیٹائزر اور ماسک بنانا سکھا سکتے ہیں۔ بعض جہاندیدہ طبیب ایسے بھی تھے جنہوں نے خوشخبری دی تھی کہ کورونا گرمی میں زندہ نہیں رہ سکتا، جونہی سورج آنکھ دکھائے گا، کورونا بھاگ جائیگا۔ کوئی ان سے پوچھے، جو آپ نے فرمایا، سب قوم کا سرمایہ مگر اور کتنی حدت درکار ہوگی کورونا کو ختم کرنے کیلئے؟
دنیا تو بیوقوف ہے جو ٹیسٹ کٹوں پر بےتحاشا وسائل خرچ کر رہی ہے اور وہ لوگ بھی نادان ہیں جو لیبارٹریوں سے رجوع کر رہے ہیں ورنہ ہمارے دانا حکیم کورونا کا ٹیسٹ کرنے کا دیسی طریقہ متعارف کروا چکے ہیں۔
آپ دس سیکنڈ تک سانس روک سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ کے پھیپھڑے توانا ہیں اور ان میں انفیکشن نہیں اور نہ ہی ابھی تک کورونا ان پر حملہ آور ہوا ہے۔ یہ رجحان محض نیم حکیم اور خودساختہ طبیبوں تک محدود نہیں بلکہ بیشمار افراد پوری سنجیدگی اور متانت کیساتھ یہ دعویٰ کرتے دکھائی دینگے کہ انہوں نے کورونا کی دوائی اور کورونا کی ویکسین ایجاد کرلی ہے مگر حکومت انکی سرپرستی نہیں کر رہی۔
آپ کو انجینئر آغا وقار تو یاد ہوگا جس نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کیا تھا؟ سوال یہ ہے کہ ہماری زمین اسقدر زرخیز ہے اور آغا وقار ٹائپ ’’جینئس‘‘ سچ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے دیسی نسخے اور علاج ہی نہیں ویکسین دریافت کرلی ہے تو پھر پاکستان میں کورونا کی وبا بےقابو کیوں ہوتی جارہی ہے اور پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد چین سے کیوں بڑھ گئی ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔