24 جون ، 2020
جسٹس فائز اہل خانہ کی لندن جائیدادیں نکلنا، صدر کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنا، عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سات رکنی بنچ بننا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اعتراض، میرے ہٹائے جانے کے بعد بنچ میں موجود جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الحسن چیف جسٹس بن سکتے ہیں، مطلب میرے چلے جانے کے بعد انہیں فائدہ ہوگا۔
انہیں بنچ میں نہ رکھا جائے، دونوں ججز کا بنچ سے علیحدہ ہو جانا، 7رکنی بنچ کا تحلیل ہو جانا، دوبارہ بنچ بننا، اس بار 10رکنی بنچ بننا، 12ماہ 22دن کیس چلنا، 41سماعتیں، چند دلچسپ چیزوں کا ہونا، اٹارنی جنرل انور منصور کا ججز پر الزام لگانا کہ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدد کی، ججز کا کہنا، ثبوت لائیں، معافی مانگیں، حکومت کا اٹارنی جنرل سے استعفیٰ لے لینا، پہلی بار حاضر سروس جج کا عدالت میں پیش ہونا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا 44منٹ فل بنچ کے سامنے پیش ہونا، ان کی اہلیہ کا 43منٹ تک وڈیو لنک سے بیان ریکارڈ کرانا، 19جون بروز جمعہ، فل بنچ کا فیصلہ آنا، صدارتی ریفرنس کالعدم، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روک دینا، شوکاز نوٹس خارج کر دینا، فل بنچ کا ایف بی آر سے کہنا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اہلخانہ کی جائیدادوں کی چھان بین کرکے 75روز میں رپورٹ جمع کروائے، باقی جو کچھ مختصر آرڈر میں، وہ سب آپ پڑھ، سن چکے۔
12مہینے، 22دن، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ایک سوال، 3لندن جائیدادیں بیوی، بچوں کے نام، کہاں سے آئے، ذرائع آمدنی، جج صاحب کا جواب، صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی، صدر جانبدار، وزیراعظم جانبدار، چیف جسٹس کھوسہ جانبدار، سپریم جوڈیشل کونسل جانبدار، اٹارنی جنرل جانبدار، ملکی ادارے جانبدار، ایجنسیوں نے میرے بیوی بچوں کی غیر قانونی مانیٹرنگ کی، میڈیا نے کردار کشی کی، جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے فروغ نسیم، انور منصور، شہزاد اکبر کی تکون، فروغ نسیم کا کنڈیکٹ ٹاؤٹ جیسا، شہزاد اکبر بہروپیا، وزیراعظم عمران خان نے کیوں اپنی بیویوں، بچوں کے اثاثے ڈکلیئر نہیں کئے۔
شہزاد اکبر تقرری غلط، اثاثہ جات ریکوری یونٹ غیر آئینی، غیر قانونی، فروغ نسیم کا استعفیٰ دے کر وفاق کا وکیل بننا غلط، حکومت کو کیسے پتا چلا، میرے اہل خانہ کی لندن جائیدادیں، میری جاسوسی کرانے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے، جج کیلئے خود مختار بیوی، بچوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنا ضروری نہیں، میرے خلاف سب کچھ فیض آباد دھرنے کےفیصلے کی وجہ سے ہو رہا، مطلب جج صاحب کے بیسیوں جواب مگر لندن جائیدادوں کے ذرائع آمدنی نہیں، منی ٹریل نہیں، ہاں یاد آیا۔
سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدر کو خطوط پر بنے ضمنی ریفرنس کو خارج کرتے ہوئے اپنے 10صفحاتی فیصلے میں جو لکھا، وہ بھی بڑا دلچسپ، جسٹس کھوسہ لکھیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو الزامات لگائے، وہ سچ پر مبنی نہیں، بدقسمتی سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میرے ساتھ نجی ملاقات کا ذکر صدارتی ریفرنس کے جواب میں کر دیا۔
ایک تو اس ملاقات، نجی گفتگو کا اپنے جواب میں ذکر کرنے سے قبل مجھ سے اجازت نہ لی، دوسرا بدقسمتی سے جسٹس فائز نے ملاقات، گفتگو کے وہ حصے بھی بتائے جو انہیں زیب نہیں دیتے تھے، پھر جسٹس فائز نے اس ملاقات کے حوالے سے سچ بات بھی نہ بتائی۔
جسٹس فائز نے صدر کو خط میں لکھا ’’انہیں کسی ریفرنس کا معلوم ہے نہ ریفرنس کے مندرجات کا‘‘، یہ سچ نہیں، جب ریفرنس آیا، میں نے خود جسٹس فائز کو بلایا، ریفرنس دیا، کہا اسے پڑھیں، انہوں نے ریفرنس پڑھا، پڑھ کر مجھ سے ریفرنس کی کاپی مانگی، میں نے کہا ریفرنس کی کاپی نہیں دے سکتا، انہوں نے ریفرنس کے نوٹس لئے، پھر مجھ سے پوچھا، کیا مجھے صدر کو خط لکھنا چاہئے، میں نے کہا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ آپ کی اپنی صوابدید۔
اب فیصلہ آچکا، ریفرنس خارج ہو چکا، پہلی بات، یہ میری عدالت کا فیصلہ، مجھے اپنی عدالت کا ہر فیصلہ قبول مگر فیصلے سے مایوسی ہوئی، دوسری بات، ریفرنس کو فیض آباد دھرنےکے فیصلے سے نتھی کر کے سازش قرار دینا یا ریفرنس کو عدلیہ پر حملہ قرار دینا افسوسناک، ہمارے ہاں مسئلہ یہی، کسی بااختیار، کسی بڑے سے پوچھ لو، بھائی جو کچھ تمہارے یا بیوی بچوں کے پاس، یہ سب کہاں سے آیا، پیسہ کمایا کیسے، جائیدادیں کیسے بنائیں، منی ٹریل دیدیں۔
بس پھر کیا بھانت بھانت کی تھیوریاں، بھانت بھانت کے مفروضے، نظام خطرے میں، جمہوریت خطرے میں، عدلیہ کی آزادی خطرے میں، سب اکٹھے ہو جائیں، مرنے مارنے پر تل جائیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام لگا، کیا الزام کی تحقیق نہیں ہونی چاہئے تھی۔
کیا جج قابل احتساب نہیں، کیا صدر ریفرنس بھیجنے کے مجاز نہیں، کیا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جانا چاہئے تھا، کیا ہوا جو آئین، قانون کے مطابق نہیں، اس میں سازش کہاں، عدلیہ پر حملہ کہاں، الزام لگا، الزام جھوٹا تو جج صاحب کے حق میں فیصلہ، الزام سچا تو جج صاحب کیخلاف فیصلہ، الزام لگانے والوں نے کہیں کوئی غیر قانونی کام کیا، حکومت، یا کسی حکومتی ادارے نے کوئی غیر آئینی، غیر قانونی کام کیا تو 10رکنی فل بنچ اسے بھی دیکھ سکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ سب بھی فل بنچ کے سامنے رکھ سکتے ہیں، مگر یہ سوچ افسوسناک، ہر شے سازش، جو بھی ہو، اس کے پیچھے سازش، کسی ’بڑے‘ سے سوال کر لو، نظام خطرے میں پڑ جائے، پھر ختم کر دیں احتساب، احتسابی ادارے، بلکہ قانون بنا دیں کہ ’بڑے‘ جو بھی کریں، سب جائز، کوئی پُچھ پرتیت نہیں۔
مزے کی بات یہ بھی، آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کو عدلیہ آزادی سے جوڑ کر جو دانشور حکمت کے دریا بہا رہے، کل یہی افتخار چوہدری کے پیچھے تھے، کل یہی ثاقب نثار کے گن گا رہے تھے، یقین نہیں آ رہا تو ان سب کا لکھا، کہا ہوا موجود، دیکھ لیں، سن لیں، پڑھ لیں، مگر جونہی افتخار چوہدری رخصت ہوئے، ان سب نے ہر خرابی، ہر برائی افتخار چوہدری کے کھاتے میں ڈال دی، جونہی ثاقب نثار گئے، وہ سب برائیوں، خرابیوں کی وجہ بن گئے۔
مطلب چڑھتے سورج کو سلام، جا چکے کی جھولی میں ہر برائی ڈال دینا، واہ رے میرے افلاطونو! تمہیں دیکھ کر تو سورج مکھی شرمائے، ہر معاملے میں نقلی حریت پسند بن کر اور جعلی چوغے پہن کر زندہ باد، مردہ باد کے نعرے مارتے میرے افلاطونو، سنو! بہت جھوٹ بولے گئے، دو نمبری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔