یہ گھانا ہے!

فوٹو: فائل

گھانا کی کابینہ میں اندرونی لڑائیاں زوروں پر ہیں۔ دو تین وزیر شدید خواہش رکھتے ہیں کہ اُنہیں جلد از جلد وزارتِ عظمیٰ مل جائے۔ کورونا، ڈینگی اور معاشی بحران زوروں پر ہے مگر دیوتا سمان وزیراعظم کی موجودگی میں پوری قوم کو یقین ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔

ملک میں ایمانداری پھیل چکی ہے۔ وزیراعظم خود ایماندار ہیں جس کی وجہ سے کابینہ ہو یا پھر پٹوار یا تھانہ کسی کی جرأت نہیں کہ وہ بےایمانی کر سکے۔ جب آپ کی قیادت ٹھیک ہو تو اس کا اثر نیچے تک جاتا ہے۔جب سے وزیراعظم برسراقتدار آئے ہیں شیطانوں اور بلائوں نے گھانا پر حملہ کر رکھا ہے۔

کبھی یہ بلائیں وبائیں لے آتی ہیں، کبھی ڈالر کو مہنگا کر دیتی ہیں اور کبھی وزیروں کو لڑا دیتی ہیں لیکن ایمانی اور روحانی قوتیں وزیراعظم کے ساتھ ہیں اس لئے بالآخر بلائوں کو شکست ہوگی اور ایمانی قوتیں اگلے دس سال تک راج کریں گی۔

جب تک وزیراعظم زندہ ہیں، وہی تاحیات گھانا کے وزیراعظم رہیں گے، اُن کے متبادل بننے کی تیاری کرنے والے وزرا ذلیل و رسوا ہوں گے۔ اس قوم کا ہیرو صرف اور صرف دیوتا وزیراعظم ہے باقی سب زیرو ہیں۔

گھانا اپنی آزادی کے بعد ہی سے کسی بڑے لیڈر کا انتظار کر رہا تھا۔ جس دن دیوتا پیدا ہوا اُسی دن سے گھانا کے دن بدلنا شروع ہو گئے۔ دیوتا جوان ہوا تو کرشمہ ساز کھلاڑی بن گیا۔ کھیل کو پلٹ کر رکھ دیا۔ عالمی کپ جیت کر گھانا کو دنیا کے نقشے پر سرخرو کر دیا۔

اُس دن سے گھانا کی عوام دیوتا کی احسان مند ہے۔ اُنہوں نے دیوتا کو سر پر اُٹھا ئے رکھا اورپھر بالآخر اُسے تخت پر بٹھا دیا۔ گھانا کو دیوتا کا اقتدار نصیب نہ ہوتا اگر دیوتا کے کھیل کو چاہنے والے طاقتور ترین نشستوں پر براجمان نہ ہوتے۔

پسند تو اُنہیں دیوتا کا کھیل تھا مگر گھانا کو ایک نئے لیڈر کی ضرورت بھی تھی اس لئے نظرِ انتخاب اسی کھلاڑی پر ٹک گئی۔ کھلاڑی دیوتا کی خامیوں کا سب کو علم تھا مگر طاقتور نشستوں پر بیٹھے گھانا کے چند افراد نے اس کی خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کیا اور اسے عہدے سے سرفراز کر دیا۔

بس اسی دن سے گھانا پر برکت کا نزول شروع ہوگیا مگر دنیا بھر کے شیطانوں، بلائوں اور بھوتوں نے گھانا پر حملہ کر رکھا ہے۔ یہ سب برائی کی طاقتیں چاہتی ہیں کہ دیوتا کو روکا جائے کہ کہیں یہ گھانا کو جنت نہ بنا دے۔

وہ کہیں یہاں پچاس لاکھ گھر نہ بنا دے کہیں، کروڑوں نوکریاں نہ دیدے، وہ کہیں ملک سے کرپشن ختم نہ کر دے۔ وہ کہیں باہر کے بینکوں میں پڑے گھانا کے اربوں ڈالر واپس نہ لے آئے۔ یہ شیطانی طاقتیں پہلے آئی ایم ایف کے ذریعے گھانا میں معاشی بحران لے کر آئیں پھر WHOکے ذریعے کورونا لے آئیں، اُن کے ارادے اور بھی خطرناک ہیں لیکن گھانا کے دیوتا اپنی روحانی قوت سے اُنہیں شکست دے ہی ڈالیں گے۔

وہ جو گھانا میں اسے اقتدار میں لائے تھے ہو سکتا ہے کہ وہ غیرمطمئن ہو گئے ہوں مگر دیوتا کو ایک بار بلا لیا جائے تو دیوتا واپس نہیں جاتے۔ گھانا میں ماضی میں کئی وزیراعظم رخصت کیے گئے مگر وہ عام انسان تھے۔ دیوتا کو اس طرح سے رخصت نہیں کیا جا سکتا۔ خون کی بلی چڑھانا پڑتی ہے۔

یونان کی دیو مالائی داستانیں ہوں یا فراعنہ مصر کی کہانیاں، دیو مالائی کردار پُراسرار بلیوں، جنوں، بھوتوں اور روحانی چلوں سے اپنے آپ کو مضبوط بنا لیتے ہیں۔ دیوتا کو یقین ہوتا ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے ایک مقدس مشن پر مامور ہے۔

اسے زارِ روس کی طرح روحانی عامل میسر ہوتے ہیں جو اسے اعلیٰ ترین فضائوں میں اُڑاتے ہیں اور زمینی حقائق سے غافل کر دیتے ہیں یہی کچھ گھانا میں ہو رہا ہے۔

گھانا کے عوام مزے میں ہیں، وہ وباؤں کو شیطان کا کام سمجھتے ہیں، اپنے دیوتا کے ہر حکم پر پوری طرح عمل کرتے ہیں۔ دیوتا کا براہِ راست کہیں اوپر رابطہ ہے اس لئے وہ کبھی لاک ڈائون کھولتا ہے، کبھی بند کرتا ہے۔ گھانا کے عوام کو یقین ہے کہ وہ جو بھی کرتا ہے ٹھیک ہی ہوتا ہے۔

گھانا کے لوگ اب اسے اپنا دیوتا بنا چکے ہیں۔ وہ صرف وزیراعظم ہی نہیں ایماندار، حسن فہم و فراست اور روحانیت کا اعلیٰ ترین ماڈل ہے۔ گھانا کے لوگ اس کے خوبصورت لباس، اس کی فاخرانہ چال، اس کی ہلکی مسکراہٹ اور حتیٰ کہ اس کے جوتوں کے اسٹائل دیکھ کر اس پر صدقے واری جاتے ہیں۔ گھانا کو جیسا لیڈر ملا ہے ایسا ملنا محال ہے۔

گھانا کے عوام اور اس کے اداروں کو اپنے دیوتا وزیراعظم پر اندھا اعتماد ہے۔ کئی بےراہ رو، جدت پسند اور مغربی دماغ دیوتا کے ماضی سے کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن قوم اور ادارے متحد ہیں اور انہوں نے اپنے دیوتا وزیراعظم کے خلاف ایسی باتیں سننے سے بھی اپنے کانوں کو بند کر رکھا ہے۔

گھانا میں ادارے براہِ راست اور اکثر بالواسطہ سابقہ وزرائے اعظم اور ان کی کارکردگی پر تبصرے کرتے رہتے ہیں مگر دیوتا کے برسراقتدار آنے کے بعد گھانا کے ادارے ان کی صلاحیتوں پر اس قدر خوش ہیں کہ سوائے ان کی تعریفوں کے کچھ نہیں کرتے۔

گھانا میں اس وقت کابینہ، اپوزیشن یا اداروں کی کوئی حیثیت نہیں جب ریاست کو اس کا دنیاوی اور روحانی دیوتا وزیراعظم کی شکل میں مل چکا تو اپوزیشن یا اداروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

گھانا میں احتساب کا دور دورہ ہے۔ ہر ایک کا احتساب ہو گا اور ہونا بھی چاہئے تاہم اس سارے عمل کا کلی اختیار دیوتا وزیراعظم کو ہی ہونا چاہئے کیونکہ وہ واحد لیڈر ہے جو ایماندار ہے۔ اسی لئے وقت کے ساتھ ساتھ وہ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے، دیوتا ہے تو گھانا ہے۔

آخری جملہ:کوئی بھی قاری گھانا کو اپنے ملک یا یہاں کے حالات سے ملانے کی کوشش نہ کرے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ بعد کے نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ اس حوالے سے کالم نگار پہلے ہی بریت کا اظہار کر رہا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔