05 جولائی ، 2020
عوامی آراء جاننے کے حوالے سے معروف ادارے گیلپ نے پاکستان میں کورونا وائرس کی صورتحال پر تازہ ترین سروے کے نتائج جاری کر دیے ہیں۔
گیلپ پاکستان نے نیا سروے 4 سے 16 جون 2020 کے درمیان کیا جس میں ملک بھر سے 12 سو سے زائد افراد نے حصہ لیا۔
نئے سروے میں انکشاف ہوا کہ کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ پر پاکستانی عوام کی اکثریت کو کافی تشویش ہے لیکن عوام مایوس نہیں اور حالات میں بہتری کی امید رکھتے ہیں۔
کورونا کے پھیلاؤ کے سوال پرسروے میں 80 فیصد افراد نے تشویش کا اظہار کیا جب کہ 15 فیصد نے اس بارے میں فکر مند نہ ہونے کا بتایا۔
جس کے بعد گیلپ پاکستان نے پوچھا کہ ان کو کس حوالے سے تشویش ہے ؟تو جواب میں 94 فیصد افراد نے گھر والوں کی صحت کی حفاظت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا، 91 فیصد نے اپنے مالی انتظامات، 87 فیصد نے سیونگز کے متاثر ہونے، 87 فیصد نے قوت خرید میں کمی، 84 فیصد نے بنیادی ضروریات پوری کرنے میں پریشانی اور 59 فیصد نے بے روزگار ہونے کے ڈر کو اپنی تشویش کی وجہ بتائی۔
البتہ سروے میں یہ دیکھا گیا کے 41فیصد افراد پُرامید تھے کے کورونا کا مسئلہ 6 ماہ میں حل ہوجائے گا۔
گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 20 فیصد کا خیال تھا کے اس میں ایک سال لگ سکتا ہے جب کہ 13 فیصد کی رائے تھی کے اس میں دوسا ل یا اس سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
سروے کے مطابق پرامید افراد میں نوجوانوں کی شرح زیادہ دیکھی گئی اور 30 سال کی عمر کے 43 فیصد 6 میں حالات میں بہتری ہونے کی امید کرتے نظر آئے جب کہ 30 سے 49 سال کے 41فیصد اور 50 سال سے زائد عمر کے افراد میں پرامید ہونے کی شرح 31 فیصد تھی۔
سروے میں 25 فیصد افراد 3 سے 4 ماہ میں معاشی حالت میں بہتری کے حوالے سے بھی پرامید تھے البتہ 26 فیصد کا خیال تھا کے کورونا کے منفی معاشی اثرات دیرپا ہوں گے 25 فیصد کا خیال تھا کے معیشت پر کورونا کے منفی اثرات 6 سے 12 ماہ کےلیے ہوں گے جب کہ 24 فیصد کا خیال تھا کے وہ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہ سکتے۔
گیلپ پاکستان کے مطابق کورونا کے منفی اثرات سے تنخواہ دار طبقے کے 54 فیصد افراد متاثر ہوئے، 27 فیصد بے روزگار ہوئے اور مزید 27 فیصد نے تنخواہ میں کٹوتی کا بتایا گیا ہے۔
بے روزگاری کا بتانے والوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرح سب سے زیادہ یعنی 32 فیصد ہے۔ خیبرپختونخوا میں یہ شرح 23 فیصد جب کہ بلوچستان اور سندھ میں 22، 22 فیصد نظرآئی۔
سروے کے مطابق بے روزگار ہونے والوں میں کم آمدنی والے افراد کی شرح بھی زیادہ ہے۔