بلاگ
Time 06 جولائی ، 2020

دو جج ایک کہانی

فوٹو فائل—

اُس دن شدید حبس تھا، میں بارش کی دعا مانگ رہا تھا، اچانک ٹیلی وژن کی اسکرین پر ایک بریکنگ نیوز نمودار ہوئی اور میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ لاہور ہائیکورٹ کی ایک انتظامی کمیٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سات سال قید سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نوکری سے برخاست کر دیا تھا۔

گزشتہ سال نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں ارشد ملک یہ اعتراف کر رہا تھا کہ اس نے العزیزیہ اسٹیل مل کیس میں نواز شریف کے ساتھ ناانصافی کی کیونکہ اس پر دباؤ تھا۔

جب انکوائری شروع ہوئی تو جج نے الزام لگایا کہ مسلم لیگ (ن) نے اسے ایک قابلِ اعتراض وڈیو کے ذریعہ بلیک میل کیا۔ موصوف نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ انہوں نے نواز شریف کے ساتھ جاتی امرا اور ان کے صاحبزادے حسین نواز کےساتھ سعودی عرب میں ملاقات کی تھی۔ جج ارشد ملک کو معطل کر دیا گیا اور ایک سال تک ان کا معاملہ لٹکتا رہا۔

ایک سال کے بعد انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت ارشد ملک کی برطرفی کو اپنی بہت بڑی فتح قرار دے رہی ہے۔ اب میرا دل چاہا کہ قہقہے لگائوں کیونکہ میں جب بھی جج ارشد ملک کے جوڈیشل مس کنڈکٹ کی مذمت سنتا ہوں تو مجھے ایک اور ملک صاحب یاد آجاتے ہیں۔

یہ تھے جسٹس ملک محمد قیوم جو 1998میں لاہور ہائیکورٹ کے احتساب بینچ کے جج ہوا کرتے تھے اور پرویز مشرف کے دور میں اٹارنی جنرل بنائے گئے۔

ملک قیوم نے سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی لیکن سزا سنانے کے کچھ عرصہ کے بعد پیپلز پارٹی نے ان کی آڈیو ٹیپس جاری کیں جن میں ان کی اس وقت کے وزیر قانون خالد انور، احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ گفتگو موجود تھی اور اس گفتگو کے مطابق جسٹس ملک قیوم نے وزیراعظم نواز شریف کی خواہش اور دبائو پر محترمہ بےنظیر بھٹو کو سزا سنائی تھی۔

جب ملک قیوم کو احتساب بینچ میں شامل کیا گیا تو پیپلز پارٹی نے بہت شور مچایا کیونکہ ملک قیوم کے چھوٹے بھائی پرویز ملک مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی تھے۔

اس دوران ملک قیوم اور نجم الحسن کاظمی پر مشتمل ایک ڈویژن بینچ نے محترمہ بےنظیر بھٹو کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیدی جس پر سیف الرحمٰن بہت ناراض تھے۔

انہیں شک تھا کہ ملک قیوم نے آصف علی زرداری کے ساتھ کوئی خفیہ ڈیل کر لی ہے لہٰذا انہوں نے ملک قیوم کے گھر اور دفتر پر زیر استعمال ٹیلی فون ٹیپ کرانے شروع کر دیے۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم تھے اور سیف الرحمٰن ٹیلی فون پر ملک قیوم کو باس بن کر حکم دیا کرتے تھے۔ اس دوران نواز شریف نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس راشد عزیز خان کو فون کیا اور کہا کہ ملک قیوم کو سمجھائیں اسے بےنظیر اور زرداری کے خلاف مقدمہ جلد نمٹانا چاہئے۔

27اپریل 1998کو ملک قیوم نے محترمہ بےنظیر بھٹو اور ان کے شوہر کو سزا سنا دی۔ اس فیصلے پر شہباز شریف نے ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ شکریہ بھی ریکارڈ ہو گیا۔ سیف الرحمٰن نے عدلیہ کے علاوہ میڈیا اور فوج کی اہم شخصیات پر بھی رعب ڈالنا شروع کر دیا۔

اس فرعونیت کے ردعمل میں ملک قیوم کے ساتھ ان کی گفتگو کی ٹیپس محترمہ بےنظیر بھٹو تک پہنچ گئیں۔ ان میں وہ ٹیپس بھی تھیں جن میں ملک قیوم کی اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو ریکارڈ تھی اور وہ اہلیہ کو حکومت کے دبائو سے آگاہ کر رہے تھے۔

پھر بیگم ملک قیوم کی پرویز ملک سے گفتگو کی ٹیپ بھی تھی لیکن محترمہ بےنظیر بھٹو نے صرف سیف الرحمٰن، خالد انور اور شہباز شریف کی ٹیپس ریلیز کیں، خاندان کے دیگر افراد کی ٹیپس صرف سپریم کورٹ کو فراہم کیں۔ سپریم کورٹ نے ان ٹیپس میں ہونے والی گفتگو پر کوئی فیصلہ نہیں دیا کیونکہ ملک قیوم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا البتہ ملک قیوم کی طرف سے محترمہ بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سنایا جانے والا فیصلہ سپریم کورٹ نے معطل کر دیا تھا۔

ملک قیوم کافی سمجھدار تھے۔ انہوں نے نوکری بچانے کے بجائے استعفیٰ دے کر انکوائریوں سے جان چھڑالی۔ جج ارشد ملک آخری وقت تک نوکری بچانے کی کوشش میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کچھ طاقتور لوگ ان کی مدد کریں گے لیکن طاقتور لوگوں نے ان کا فون سننا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ملک قیوم اور ارشد ملک کی کہانیوں میں ایک سبق موجود ہے۔

سبق یہ ہے کہ جج صاحبان جب دباؤ میں آکر ناانصافی کرتے ہیں تو اپنے لیے ذلت کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ یہ ذلت صرف ان کمزور ججوں کا مقدر نہیں بنتی بلکہ انہیں بھی رسوا کرتی ہے جو اقتدار کے نشے میں دُھت ہو کر ججوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، مولوی تمیز الدین کیس میں چیف جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ جسٹس اے آر کارنیلئس نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس منیر ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ایوب خان کے وزیر قانون بھی بن گئے لیکن ان کا نام پاکستانی عدلیہ کے لئے ایک طعنہ اور جسٹس کارنیلئس کا نام عزت کا باعث بنا۔

گورنر جنرل غلام محمد سے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف تک جس کسی نے بھی عدلیہ پر دبائو ڈالا اسے عزت نصیب نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ العزیزیہ کیس میں جج ارشد ملک نے واقعی نواز شریف کے ساتھ ناانصافی کی ہو لیکن جو نواز شریف کے دورِ حکومت میں ملک قیوم نے محترمہ بےنظیر بھٹو کےساتھ کیا اس کی سزا بھی تو کسی نہ کسی کو ملنا تھی۔ کچھ سزائیں عدالتیں نہیں قدرت دیتی ہے۔

میری یہ گزارشات نواز شریف کے حامیوں کو سخت ناگوار گزریں گی لیکن آج میرا مخاطب نواز شریف نہیں عمران خان ہیں۔ نواز شریف کے خلاف مقدمات بنے تو عمران خان وزیراعظم نہیں تھے لیکن نواز شریف کے خلاف ارشد ملک کے فیصلے کا فائدہ عمران خان کو ہوا۔ ارشد ملک تو نوکری سے فارغ ہو گیا لیکن آج نہیں تو کل وہ لوگ بھی بےنقاب ہوں گے جنہوں نے ارشد ملک کو ناانصافی پر مجبور کیا۔

ملک قیوم اور ارشد ملک کی کہانیوں میں عمران خان کے لئے یہ سبق ہے کہ ججوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے والے طاقتور لوگوں کو آخر میں صرف رسوائی ملتی ہے۔ ملک قیوم کی کہانی مکمل ہو چکی لیکن ارشد ملک کی کہانی بھی بہت جلد مکمل ہو جائے گی، دونوں کہانیوں کا انجام ایک سا ہو گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔