Time 15 جولائی ، 2020
بلاگ

پی ٹی آئی اور جے آئی ٹی

فوٹو: فائل

عمران خان کی حکومت کی باقی پالیسیوں کا جو بھی انجام ہوا لیکن اُن کی ایک پالیسی بڑی کامیابی سے چل رہی ہے اور وہ ہے اصل ایشوز سے توجہ ہٹانے اور اپوزیشن کو مختلف ایشوز میں الجھا کر دفاعی پوزیشن پر لانے کی پالیسی۔

اس معاملے میں پی ٹی آئی کمال کی حدوں تک پہنچ گئی ہے۔ اس نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کشمیر اور سی پیک کے معاملے میں بلنڈرز کو کورونا کے قالین تلے دبا دیا حالانکہ اس حکومت نے سی پیک کو پشاور کا بی آر ٹی بناکے رکھ دیا اور کشمیر کاز کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پی آئی اے کے ساتھ کیا۔ اس کی اس کامیاب پالیسی کی تازہ ترین مثال سندھ حکومت کو جے آئی ٹیز کی رپورٹ منظر عام پر لانے پر مجبور کرنے کا اقدام ہے۔

کورونا لوگوں کو نگل رہا ہے لیکن یہ حکومت کورونا کو نگل کر اس سے توجہ ہٹارہی ہے۔ کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کے الیکٹرک کا ایشو پس منظر میں چلاگیا۔ تاریخ کے بدترین بجٹ کا آپریشن ختم ہوا۔ چینی اسکینڈل کا فالو اپ ختم ہوگیا۔ پی آئی اے کا جہاز ڈبونے سے توجہ ہٹ گئی اور ہر طرف جے آئی ٹی، جے آئی ٹی ہونے لگا۔ حالانکہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان جے آئی ٹیز نے قوم پر کیا نیا انکشاف کیا؟

اگر بلدیہ کمیٹی کی جے آئی ٹی سامنے نہ بھی آتی تو کیا پاکستان میں کسی شہری کو شک تھا کہ الطاف حسین کی زیر قیادت ایم کیوایم، کراچی کو جہنم بنا کر لوگوں کو قتل کررہی تھی(الطاف حسین کو نیلسن مینڈیلا کہنے والے ان کے وکیل فروغ نسیم آج وزیراعظم کی آنکھوں کاتارا اور اس حکومت کے وکیل ہیں)۔

اگر عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی سامنے نہ بھی آتی تو کس سے یہ حقیقت پوشیدہ تھی کہ پیپلز امن کمیٹی کا اصل سرپرست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا تھا اور ذوالفقار مرزا کا سرپرست آصف زرداری تھا۔ لیکن چائے کی پیالی میں طوفان کھڑااُٹھاکر علی زیدی نے ایسا ماحول بنا دیا کہ جیسے وہ تاریخ کا سب سے بڑا انکشاف کرنے جارہے ہیں حالانکہ جو رپورٹ وہ سامنے لائے، اس میں بات نئی تو کوئی نہیں لیکن اس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت بھی نہیں۔

اگر وزیراعظم دس ارکان کی کمیٹی بنادیں تو اس میں کوئی ایک رپورٹ پر پانچ ارکان کے دستخط ہوں اور دوسرے پر دس کے دس ارکان کے، تو ظاہر ہے کہ اس رپورٹ کو حقیقی اور حتمی ماناجائے گا جس پر دس ارکان کے دستخط ہوں۔ پھر وہ رپورٹ حقیقی مانی جائے گی جس کو وزیراعظم ہائوس باقاعدہ جاری کرے، نہ کہ وہ رپورٹ جو کوئی لفافے تقسیم کرنے والے گھر کے دروازے پر پھینک چکے ہوں۔

تماشہ یہ ہے کہ دونوں رپورٹس میں جس شخص کو واضح طور پر عزیر بلوچ کا سرپرست اورسہولت کار بیان کیا گیا ہے، وہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ہیں لیکن جہاں زیدی صاحب نے پیپلز پارٹی کے خلاف آسمان سر پر اٹھارکھا ہے، وہاں وہ ذوالفقار مرزا کو ہیرو قرار دے رہے ہیں۔ ایک اور چیز جو دونوں رپورٹوں میں مشترک ہے وہ ایرانی انٹیلی جنس کا کردار ہے۔ دونوں رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ عزیز بلوچ ایرانی پاسپورٹ لے کے پھرتا تھا اور ایرانی انٹیلی جنس کے لئے اس نے پاکستانی فوج کی مخبری کی۔

علی زیدی کی رپورٹ میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اس نے کور کمانڈر، ڈی جی رینجرز اور سیکورٹی کے اداروں سے متعلق معلومات ایرانی انٹیلی جنس تک پہنچائیں۔ اسی طرح باقی جرائم میں ابھی عزیر بلوچ ملزم ہے اور عدالت سے اسے سزائیں نہیں ہوئیں لیکن ایران کے لئے جاسوسی کے جرم میں اس کو فوجی سزا سنائی جاچکی ہے۔

یوں زرداری اور ذوالفقار مرزا سے بھی عزیر بلوچ کی بڑی سہولت کار ایرانی انٹیلی جنس نکل آتی ہے لیکن عزیر بلوچ کے اس سب سے بڑے سرپرست یعنی ایران کی علی زیدی یا کسی اور وزیر نے کوئی مذمت نہیں کی۔

جس سے یہ تاثر بجا طور پر جنم لیتا ہے کہ اصل مقصد عزیر بلوچ کے سرپرستوں کو ایکسپوز کرنا نہیں بلکہ سیاست ہے ۔ دوسری طرف چونکہ ایم کیوایم حکومت میں ساتھ بیٹھی ہے، اس لئے بلدیہ کمیٹی پر نہیں بلکہ صرف عزیر بلوچ پر زور ہے حالانکہ بلدیہ کی رپورٹ پر کوئی تنازعہ بھی نہیں۔ گزشتہ چند سال سے بار بار عرض کررہا ہوں کہ سیاست کے سینے میں دل تو پہلے سے نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی کے عروج کے بعد اس کی آنکھ سے شرم وحیا بھی رخصت ہوگئی۔

آپ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو دیکھ لیجئے۔ ان کے میاں کہا کرتے تھے کہ ان کے تن پر موجود کپڑے بھی آصف زرداری کے مرہون منت ہیں۔ پھر جب ان کو وزارت سے ہٹایا گیا تو اس کے بعد بھی فہمیدہ مرزا زرداری کی تابعدار بن کر اسپیکرشپ کے مزے لوٹتی رہیں۔ اس کے بعد ان کے بیٹے نے اسی زرداری کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا۔

اب وہ کابینہ میں بیٹھ کر زرداری پر تو تبرا بھیج رہی ہیں لیکن ذوالفقار مرزا کو عزیر بلوچ کے معاملے میں معصوم قرار دے رہی ہیں۔ دوسری طرف ”ریاست مدینہ“ کے نام لیوائوں کا کردار ملاحظہ کیجئے کہ زرداری، دراب پٹیل، سعید غنی اور دیگر تو عزیر بلوچ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے مجرم ہیں لیکن فہمیدہ مرزا فرشتہ ہیں۔

حالانکہ رتی بھر بھی اخلاقیات کا سیاست سے سروکار ہوتا تو اس رپورٹ کو عام کرتے ہی وزیراعظم فہمیدہ مرزا کو کابینہ سے نکالتے اور ذوالفقار مرزا سمیت سب کے خلاف کارروائی کرتے۔

صرف ٹی وی ٹاک شوز میں تو تو میں میں کی کیا ضرورت ہے۔ وزیراعظم ہمت کریں اور بلدیہ ٹائون اور عزیر بلوچ کے جے آئی ٹی میں نامزد ملزموں اور ان کےسر پرستوں کے خلاف کیسز کا اندراج کریں۔ کیسز نہیں بناسکتے تو جو ملزم یا ملزموں کے سرپرست اپنی بغل میں بٹھا رکھے ہیں، ان کو تو پرے کرلیں لیکن ایسا وہ کبھی نہیں کریں گے کیونکہ اسمبلی میں ووٹ درکار ہیں۔

میں اس طرح کی رپورٹوں کو کوئی اہمیت دینے کا قائل ہوں اور نہ ان پر وقت ضائع کرنے کا۔ اپنی بیس سالہ صحافت کا تجربہ یہی ہے کہ ایسی رپورٹس بنائی بھی سیاسی مقاصد کے لئے جاتی ہیں اور منظر عام پر بھی کسی کابازو مروڑنے کے لئے لائی جاتی ہیں۔اصلاح مقصود ہے تو قومی سطح پر ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن بنا دیجئے۔

جو کراچی کے معاملات کی بھی جانچ کرے، جو بلوچستان کے حقائق بھی سامنے لائے، جو قبائلی اضلاع اور وار آن ٹیرر میں ہونے والے جرائم سے بھی پردہ اٹھائے، جو مسنگ پرسنز اور پولیٹکل مینجمنٹ کے موضوعات کو بھی ایڈرس کرے اور قومی وجود کو زخم لگانے والے دیگر معاملات کے حقائق بھی سامنے لائے۔ ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن نہیں بنتا تو اس طرح کے ڈراموں سے کوئی خیر برآمد نہیں ہوگا، بلکہ شر میں اضافہ ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔