بلاگ
Time 19 جولائی ، 2020

73سال۔ قربتوں کی بجائے دوریاں

فوٹو: فائل

کیسی ستم ظریفی ہے کہ عالمگیر وبا سے بچنے کا بنیادی طریقہ سماجی فاصلے ٹھہرا۔ ہمارے سماج میں تو یہ فاصلے صدیوں سے ہیں۔ انہیں کبھی طبقاتی تضاد کہا گیا۔ جاگیردارانہ سماج، استحصالی سماج، وسائل پر چند طبقوں کا قبضہ، تازہ ترین اصطلاح اشرافیہ، بروزن مافیا۔غالب یاد آرہے ہیں۔

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف، آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے۔ کورونا نے سوچنے کی اتنی فرصت دے دی ہے کہ دماغ ہر روز کئی کئی صدیوں سے گزر آتا ہے۔ اپنے ماہ و سال ہی نہ جانے کہاں کہاں لیے پھرتے ہیں۔ دشت و صحرا، شہر قصبے، محفلیں، بادہ خانے، عبادت گاہیں، میرے دل و دماغ، میرے در و دیوار مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں۔

73سال کی طویل مسافت کے بعد ہمیں جہاں ہونا چاہیے تھا ہم وہاں ہیں یا نہیں، آج 19جولائی ہے، 1969میں انسان چاند پر اتر گیا تھا مگر ہم جہاں 1947میں تھے وہیں کے وہیں بلکہ اس سے بھی پہلے کہیں بھٹک رہے ہیں۔

سات دہائیوں کے بعد ہمیں جتنا مہذب، شائستہ اور متحمل مزاج ہو جانا چاہئے تھا کیا ہم وہ ہیں۔ 73سال میں ہمارے مختلف صوبوں علاقوں میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کے جتنا قریب ہونا چاہئے تھا کیا ہم وہ ہیں۔ میں نے تو 1972میں اپنے آپ سے گلہ کیا تھا:

ہم بٹ رہے ہیں شام سمٹتے نہیں کبھی

اس انتشار ذات کی کچھ انتہا بھی ہے

آپ بتائیے۔ آپ آج اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہنوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ پنجابی پہلے سے زیادہ پنجابی، سرائیکی پہلے سے زیادہ سرائیکی، سندھی پہلے سے زیادہ سندھی، بلوچ پہلے سے زیادہ بلوچ، پشتون پہلے سے زیادہ پشتون، کشمیری پہلے سے زیادہ کشمیری، مہاجر پہلے سے زیادہ مہاجر، گلگتی پہلے سے زیادہ گلگتی نہیں ہو گئے ہیں۔

اگر اپنے ادب، ثقافت، روایات اور میراث کے تحفظ کے لیے ایسا ہوتا تو بہت محترم ہوتا مگر یہ شدت اپنی مسلسل محرومیوں کے باعث ہوئی ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے اپنے حقوق حاصل نہ ہونے کے سبب ہوئی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔ اپنا ملک، اپنی حکومت، اپنی فوج، اپنے وسائل ہونے کی بدولت تو ہم میں محفوظ ہونے کا اطمینان پیدا ہونا چاہئے تھا۔ مذہبی اعتبار سے بھی اطمینان نہیں ہے۔ اقلیتیں تو اس شدت پسندی میں خوف زدہ ہوتی ہوں گی لیکن یہاں تو سوادِ اعظم بھی غیرمطمئن ہے۔

یہ عدم اطمینان حق کی جستجو میں اِدھر اُدھر لیے پھرتا ہے۔ مسلک کے اعتبار سے بھی 1947سے 2020کا سفر اجماع کے بجائے اختلاف کی طرف ہوا ہے۔ سب قابلِ احترام ہیں۔ سنی، شیعہ، دیو بندی، بریلوی، اہلحدیث سب ایک گلدستے کے مختلف حصّے ہیں لیکن ایک دوسرے سے کتنے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہر فرقے کی مزید شاخیں نکل آئی ہیں۔

گزشتہ دو تین دہائیوں سے تو اپنی ذات کی تشہیر پر فخر کا رجحان بھی تیزی سے ہورہا ہے۔ اسّی کی دہائی تک آپ کو پاکستان میں اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کتنی ذاتیں ہیں۔ اب اسمبلیوں کے ارکان، اینکر پرسن، نیوز ریڈر، افسانہ نگار، ڈاکٹر، پروفیسر، بیورو کریسی، فوج سب ہی اپنی ذات کے اظہار کو ترجیح دیتے ہیں۔ قبیلوں سے وابستگی پر فخر کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے۔ بہت آسانی سے ہم اسے جابر آمر جنرل ضیاءالحق کی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے دیتے ہیں۔ وہ تو 1988میں رخصت ہو گئے۔ ان کے بعد محترمہ بےنظیر بھٹو، میاں نواز شریف باری باری انتظامیہ کی سربراہی کرتے رہے۔

پھر لبرل آمر جنرل پرویز مشرف طویل عرصہ رہتے ہیں۔ آصف زرداری، میاں نواز شریف بھی حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ تین دہائیاں اس ایک دہائی کے زخم مندمل کیوں نہ کر سکیں۔ کیا جنرل ضیاء اپنی پالیسیوں سے زیادہ مخلص تھے۔ بعد میں آنے والے حکمراں اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے میں خلوص کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی محرومیاں دور نہیں کرسکے ہیں۔ میرٹ پر اہلِ وطن کو آگے بڑھنے نہیں دیتے ہیں۔ صرف مملکت یعنی پاکستان سے وابستگی کا احساس ان کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں ذیلی وابستگیاں ظاہر کرنا پڑتی ہیں۔ انہیں علاقائی، لسانی، نسلی اور مسلکی وابستگیوں میں پناہ ڈھونڈنا پڑتی ہے۔

ہم مختار ہونے کے باوجود مجبور ہیں۔ اس کا الزام کسی فرد یا ادارے پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس سے اگر کوئی بچ سکتا ہے تو ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے مسیحا، جو پاکستانیوں بلکہ انسانوں کی خدمت کسی بھی امتیاز کے بغیر کررہے ہیں۔

کہا جاتا تھا کہ جس ماحول میں مباحثے ہوں، تبادلۂ خیال ہو، ابلاغ کے وسائل آزاد ہوں، وہاں پہ تنگ نظری، علاقائی عصبیتیں، سماجی فاصلے نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں 1988سے اب تک بحث مباحثے کی جتنی آزادی ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ کتنے ٹی وی چینل ہیں۔ اخبارات، رسائل پھر سوشل میڈیا، ہزاروں گروپ بھی جہاں معلومات بانٹی جارہی ہیں۔

پہلے تو طبقاتی تضاد کے حوالے سے سیاسی شعور اور بیداری سے مسائل حل کیے جاتے تھے۔ اب نسلی وابستگی طبقاتی تقسیم پر حاوی ہو چکی ہے۔ پہلے ایک طبقہ وسائل پر قابض تھا۔ دوسرے طبقات اس سے وسائل چھڑوانا چاہتے تھے۔ اب نسل پرستوں کے گروہ وسائل کو اپنی گرفت میں لینا چاہتے ہیں۔ یہ شدید رجحانات پڑھے لکھے لوگوں میں زیادہ ہیں۔ امریکہ کینیڈا یورپ کے کھلے ماحول میں رہنے کے باوجود یہ شدت پسندی کم نہیں ہوتی ہے۔ علاقائی عصبیتیں علاقائی لیڈر پیدا کرتی ہیں۔

جدید طرز زندگی، جدید تعلیم، اکیسویں صدی بھی ہمارے ان محسوسات کو کم نہیں کر پائے ہیں۔ دو سال بعد پاکستان 75سالہ آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منانے والا ہے۔ قومیں آزادی کے بعد آپس میں اتنی گھل مل جاتی ہیں کہ آپس میں شادیاں ہوتی ہیں۔

کاروبار، نظریاتی ہم آہنگی لیکن ہم پہلے سے بھی زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ ہے کوئی سیاسی جماعت، تھنک ٹینک، میڈیا جو اِن بچھڑے ہوئے اپنوں کو آپس میں ملائے۔ صرف میرٹ پر آگے بڑھنے کا موقع دے۔ انسانیت کا احترام کسی نسل، رنگ، مسلک کے بغیر کروائے ہر فرد کو خود مختاری نصیب ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔