22 اگست ، 2020
جس طرح کرکٹ اور سیاست الگ الگ میدان ہیں بعینہ سیاست اور گورننس بھی الگ الگ چیزیں ہیں ۔ جس طرح کرکٹ، پریکٹس اور تجربے کے بغیر سیکھی نہیں جاسکتی ، اسی طرح سیاست بھی اس میدان میں دھکے کھائے بغیر نہیں سیکھی جاسکتی اور بعینہ گورننس اور حکمرانی کے فن پر بھی عبور تجربے کے بعد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
بلاشبہ عمران خان باکمال کرکٹر تھے اور انہوں نے بیس بائیس سال سیاست بھی کی لیکن حکمرانی کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا کیونکہ سیاست اور گورننس الگ الگ میدان ہیں۔ اس کمی کو وہ تجربہ کار ٹیم سے پورا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے گرد ایسے وزیروں اور مشیروں کو جمع کیا جو ان کی طرح بولنے میں تو افلاطون ہیں لیکن ظاہر ہے سب اتفاقی ممبران پارلیمنٹ یا وزیر مشیر بنے ہیں اور اس سے پہلے کسی کو صوبائی وزارت کا بھی تجربہ نہیں تھا۔کئی ایک توبیرون ملک سے مختصر عرصے کے لئے پاکستان کے دورے پر آئے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت کےہر شعبے میں ایک نا تجربہ کاری اور افراط و تفریط نظر آتی ہے ۔ شاہ محمودقریشی اور پرویز خٹک کی طرح کچھ تجربہ کار لوگ بھی عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنے لیکن بدقسمتی سے وہ ان کے گڈبکس میں ہیں اور نہ ان کی کچن کیبنٹ کا حصہ ۔ شاہ محمود قریشی کا المیہ یہ ہے کہ وہ اصلا پنجاب کے وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے لیکن عمران خان اور جہانگیر ترین نے ان کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا کہ وہ صوبائی اسمبلی میں ہی نہیں پہنچ سکے۔
انہوں نے وزارت خارجہ بادل ناخواستہ قبول کی لیکن پھر وزیراعظم کے دل میں یہ شک ڈالا گیا کہ شاہ محمودقریشی جس طرح آصف زرداری کی بجائے کسی اور کے وفادار بن گئے تھے، اسی طرح اب بھی وہ عمران خان کے نہیں بلکہ کسی اور کے چہیتے بن کر ان کا متبادل بننا چاہتے ہیں۔ یوں وزیرخارجہ ہوکر بھی خارجہ امور کبھی ان کی توجہ کا مرکز نہیں رہے۔
کبھی وہ وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھتے ہیں تو کبھی فیصل واوڈا بن کر اپوزیشن کو لتاڑنے کے ذریعے وزیراعظم کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں ۔ دوسری طرف وہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں چھوٹے سے چھوٹا قدم اٹھاتے وقت بھی دو تین جگہوں سے منظوری لینا ضروری سمجھتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو ان کے نسبت وزیراعظم کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے میں زلفی بخاری کا کردار کئی گنا زیادہ ہے جب کہ وزیرخارجہ کاکردار وزیراعظم خود ادا کررہے ہیں اور بدقسمتی سےوہ اس میدان کی نزاکتوں کو سمجھتے نہیں۔ چین ہو کہ سعودی عرب ہر محاذ پر پنڈی والے ان کے لئے معاملہ بناتے اور وہ بگاڑتے رہتے ہیں۔ چینیوں کو شکایت ہوجاتی ہے ۔ پنڈی والے مداخلت کرکے معاملات درست کرلیتے ہیں لیکن اگلے روز وزیراعظم خود یا ان کے کوئی وزیر ایسی حرکت کرلیتے ہیں کہ معاملہ دوبارہ بگڑ جاتا ہے ۔ یہی صورت حال سعودی عرب کے ساتھ ہے ۔
پنڈی والوں نے ان کی محمد بن سلمان کے ساتھ دوستی کرادی لیکن وہ دوستی پہلے تنائو اور اب مخاصمت میں بدل گئی ۔شاہ محمودقریشی یقینا سفارتی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ وزیراعظم کی ناراضی سے بچنے کے لئے صحیح مشورہ دینے کی ہمت نہیں کرتے ۔
مثلا یہ شاہ محمود قریشی کا فرض تھا کہ وہ وزیراعظم کو بتاتے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کرائون پرنس کے ذاتی جہاز میں جانا مناسب نہیں لیکن انہوں نے انہیں نہیں روکا۔ پھر اگر خان صاحب نہیں سمجھ رہے تھے تو قریشی صاحب تو سمجھ رہے تھے کہ ترکی، ایران اور ملائشیا کے سربراہوں کے ساتھ مل کر اتحاد بنانے کا سعودی عرب سے کیا ردعمل آئے گا لیکن انہوں نے وزیراعظم کو روکا اور نہ یہ نزاکت سمجھائی۔
پھر جب وزیراعظم امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی کی سفارتی بڑھک ماررہے تھے تو شاہ محمود یقینا سمجھتے تھے کہ اس کا سعودی عرب کی طرف سے کیا ردعمل آئے گا لیکن مجھے یقین ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کو خوش کرنے کے لئے شاباش تو دی ہوگی لیکن انہیں روکا نہیں ہوگا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ستمبر ۲۰۱۹ میں ہوا تھا جب کہ کوالالمپور کانفرنس دسمبرمیں منعقد ہونا تھی۔
یوں ستمبر اور دسمبر کے درمیان تین ماہ کا وقفہ تھا۔ ان تین ماہ کے دوران وزارت خارجہ کو چاہئے تھا کہ سعودی قیادت کے ساتھ معاملات درست کرلیتی اور جب ایسا نہ کرسکی تو پھر وزیراعظم کو مشورہ دینا چاہئےتھا کہ وہ کوئی مناسب عذر پیش کرکے ملائشیا جانے سے معذرت کرلیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا اور عین وقت پر وزیراعظم اس امید کے ساتھ سعودی عرب گئے کہ وہ وہاں کی قیادت کو آمادہ کرلیں گے لیکن وہاں جاکر انہیں اندازہ ہوا کہ ملائشیا جانے کا مطلب سعودی قیادت کی مکمل ناراضی ہوگی چنانچہ وہاں سے ترکی اور ملائشیاسے معذرت کی گئی۔
اب جب ایک بلنڈر ہوگیا تھا تو پھر غیرضروری طور پر ملائشیا جانے کے دوسرے بلنڈر سے گریز کرنا چاہئے تھا لیکن نہ جانے کیوں کچھ عرصہ بعد وزیراعظم نے ملائشیا جانا اور پھر وہاں پر یہ بیان کہ ”کانفرنس میں نہ آکر انہوں نے غلطی کی اور یہ کہ وہ اگلے سال کانفرنس میں شرکت کرنے آئیں گے“ دینا ضروری سمجھا ۔ دوسری طرف خود شاہ محمودقریشی کی کشمیر کی آڑ میں سعودی عرب کو سنانے کی منطق کو بھی میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔ اگر کشمیر کے معاملے پر ردعمل دینا تھا تو یہ پہلے پورے سال کے دوران کیوں نہ دیا گیا۔ 5اگست 2020کو پہلی مرتبہ اوآئی سی کے ایکسپرٹ گروپ نے کشمیریوں کے حق میں بیان دیا ، جس پر پاکستان کو خوش ہوکر شکریہ ادا کرنا چاہئے تھا لیکن اگلے دن وزیر خارجہ نے میڈیا پر آکر سعودی عرب اور اوآئی سی سے متعلق سخت بات کردی۔
کسی نے مجھ سے پوچھا کہ عمران خان تو بہت محنت کررہے ہیں لیکن پھر یہ سب کچھ غلط کیوں ہورہا ہے ؟ میں نے بصدادب احترام عرض کیا کہ اگرنواز شریف قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان، زرداری اوپنر، مولانا وکٹ کیپر، چوہدری شجاعت آل رائونڈر کے طور پر کھیلیں۔بے شک اسفندیار،سراج الحق اور اختر مینگل بھی ٹیم کا حصہ ہوں تو قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کیسی ہوگی؟ پھر اگر سامنے ٹیم بھی آسٹریلیا یا ویسٹ انڈیز کی ہو تو کیا بھرپور محنت کرکے بھی پاکستانی ٹیم جیت سکے گی ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔
میں نے عرض کیا کہ یہی کچھ اس وقت پاکستان میں ہورہا ہے ۔ مقابلہ انڈیا کے تجربہ کار اور مکار سیاستدانوں سے ہے اور جواب میں ہماری حکومتی ٹیم دوران میچ حکمرانی کی ابتدائی پریکٹس کر رہی ہے۔سو جو حشر نواز شریف یا زرداری کی قیادت میں قومی کرکٹ ٹیم کا ہوگا، وہی اس وقت عمران خان کی قیادت میں پاکستان کا ہورہا ہے۔جس کا کام اسی کو ساجے۔نہ جانے یہ سیدھی سادی بات ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔