27 اگست ، 2020
سال 2020ء کے وہ دن انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے جب کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بند ہو گئی تھی۔
تمام بڑے شہر ویران ہو گئے تھے۔ ہر طرف موت ناچ رہی تھی اور اسلام آباد سمیت دنیا کے کئی شہروں کی سڑکوں پر جنگلی جانور گھومنے لگے تھےکیونکہ انسان گھروں میں بند ہو گئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب مجھ سمیت کئی کالم نگار یہ لکھ رہے تھے کہ پتہ نہیں کون زندہ بچے گا اور کون نہیں؟ کئی ٹی وی اینکرز نے اسٹوڈیو سے پروگرام کرنے بند کر دیئے اور گھروں میں بیٹھ کر اسکائپ پر پروگرام کرنے لگے۔
روز کسی قریبی عزیز یا جاننے والے کی موت کی خبر اُداس کر دیتی تھی۔ کئی لوگوں نے زندگی میں پہلی دفعہ رمضان المبارک میں نماز تراویح مسجدوں میں ادا نہیں کی اور عید الفطر کی نماز بھی گھر پر ادا کی۔
جون 2020ء میں کچھ دن ایسے بھی تھے جب پاکستان میں روزانہ سو سے زیادہ افراد کورونا وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے تھے اور کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ اگست تک حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی لیکن جب اگست آیا تو حیرت انگیز طور پر کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کمی ہونے لگی۔
20؍ اگست 2020ء کو برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے لکھا کہ سائنس دان اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کمی اور ہمسایہ ملک بھارت میں بدستور اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ تادم تحریر دنیا میں کورونا وائرس کا علاج دریافت نہیں ہوا لیکن پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں اس وبا پر قابو پایا جا چکا ہے۔ یہ وبا کم ہوئی ہے، ابھی ختم نہیں ہوئی لیکن بہت سے لوگوں نے احتیاط چھوڑ دی ہے۔
مجھے اسلام آباد میں کچھ غیر ملکی سفارت کاروں سمیت دنیا کے چند بڑے اخبارات نے پوچھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کمی کے پیچھے کیا راز ہے؟ میں نے سب کو ایک ہی جواب دیا اور وہ تھا این سی او سی۔
نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ایک نیا ادارہ تھا جو کورونا وائرس کے مقابلے کے لئے قائم کیا گیا۔ اس ادارے کے ذریعہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں میں کوارڈی نیشن کا ایک مستقل نظام قائم کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل حمود الزمان خان کو اس ادارے کا چیف کوارڈی نیٹر بنایا گیا۔
کورونا وائرس جیسی وبا صدیوں میں ایک دفعہ آتی ہے لہٰذا اس وبا سے لڑنے کا پاکستان میں کسی کو کوئی تجربہ نہ تھا۔ اس وبا کے مقابلے کے لئے عوام کو درست معلومات کی فراہمی اور احتیاطی تدابیر سے آگاہی بہت اہم ہتھیار تھے۔
یہ ذمہ داری ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کو سونپی گئی۔ انہوں نے اس سلسلے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور نیٹو کی کمیونی کیشن اسٹرٹیجی کے علاوہ چین کے ماڈل کا مطالعہ کیا اور پاکستان کی زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک آگاہی مہم تیار کی جس میں اخبارات اور ٹیلی وژن چینلز نے اُن کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ آپ کو یہ سن کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ پچھلے چھ ماہ میں ٹی وی چینلز نے کورونا وائرس کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور آگاہی مہم میں دس ہزار گھنٹوں سے زیادہ وقت وقف کیا۔
یہ وہ وقت تھا جس میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں مصروف ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ اس دوران سوشل میڈیا کے ذریعہ بہت ڈس انفارمیشن پھیلائی جاتی رہی لیکن اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس ڈس انفارمیشن کو بھی ناکام بنایا۔ این سی او سی میں سویلین اور فوجی قیادت ایک چھت کے نتیجے اکٹھی ہو گئی۔
ایک طرف وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی جاری تھی لیکن این سی او سی کے اجلاسوں میں اس ناچیز نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ایک دوسرے کے ساتھ بڑے دوستانہ انداز میں بات چیت کر رہے ہیں اور اتفاق رائے سے فیصلے کر رہے ہیں۔ این سی او سی کے اجلاسوں میں صوبائی حکام اسکائپ پر یا ویڈیو لنک پر شریک ہوتے تھے اور انہیں بھی مقامی طور پر فوج کی بھرپور مدد حاصل ہوتی تھی۔
یہی وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے این سی او سی نے آہستہ آہستہ کورونا وائرس کو پسپا کرنا شروع کیا۔ فوج کے تمام ادارے این سی او سی کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے رہے اور اس کی وجہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی تھی۔ وہ اور وزیراعظم عمران خان خود این سی او سی میں آ کر اس کا کام دیکھتے رہے۔ جب این سی او سی نے اپنا کام شروع کیا تو پاکستان میں روزانہ کورونا وائرس کے 472 ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت تھی کیونکہ ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریوں کی تعداد پورے ملک میں صرف چار تھی۔
این سی او سی نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر لیبارٹریوں کی تعداد 133تک پہنچا دی اور آج روزانہ 22ہزار سے 24ہزار ٹیسٹ ہو رہے ہیں ۔اس وقت پاکستان کے پاس روزانہ 60ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت ہے۔ شروع شروع میں ہاسپٹلز میں وینٹی لیٹرز بہت کم تھے۔ این سی او سی نے کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے پورے ملک کے ہاسپٹلز میں بیڈز بھی بڑھائے اور وینٹی لیٹرز کا بندوبست بھی کیا۔
اس وقت ملک بھر میں 1920 وینٹی لیٹرز کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے مختص ہیں لیکن صرف 113زیر استعمال ہیں۔ روزانہ اموات کی تعداد 153سے کم ہو کر 15سے 20تک آ چکی ہے۔ اس دوران ٹڈی دل نے بھی حملہ کیا لیکن ٹڈی دل کے مقابلے کا مشن لیفٹیننٹ جنرل معظم اعجاز کو سونپا گیا اور کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل کا بھی بھرپور مقابلہ کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں لاک ڈائون کے طریقہ کار پر اختلاف رہا لیکن این سی او سی کے فورم پر ہونے والے فیصلوں کا احترام کیا گیا۔
سندھ کی دیکھا دیکھی پنجاب اور خیبر پختونخوا نے بھی لاک ڈائون کا اعلان کیا تو وزیراعظم نے ان فیصلوں کا احترام کیا لیکن آخر کارا سمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی کامیاب رہی۔
عید الفطر کے بعد کورونا وائرس میں تیزی آئی لیکن عید الاضحی پر موثر حکمت عملی کے ذریعہ اسے قابو میں رکھا گیا۔ اب محرم شروع ہے اور ستمبر میں تعلیمی ادارے بھی کھل سکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ کورونا وائرس کو پسپا کیا گیا ہے ابھی اسے مکمل شکست نہیں ہوئی۔ اب تک کامیابی کا کریڈٹ این سی او سی کی چھت تلے اکٹھی ہونے والی سویلین اور فوجی قیادت کے آپس میں تعاون کو جاتا ہے جس میں سندھ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت بھی شامل ہے۔
این سی او سی کا اسٹاف عید کے دنوں میں بھی تین شفٹوں میں کام کرتا رہا اور اس کے ہیڈ کوارٹر کی لائٹیں کبھی بند نہیں ہوئیں۔ کامیابی کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کے لئے ہمیں مزید کچھ مہینے احتیاط کرنی ہے کیونکہ ماہرین کے خیال میں موسم سرما میں کورونا ہم پر واپس جھپٹ سکتا ہے اس لئے ماسک کا استعمال مت چھوڑیئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔