Time 29 اگست ، 2020
بلاگ

ففتھ جنریشن وار اور پاکستانی میڈیا کا المیہ

فوٹو: فائل

ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح اگرچہ مغربی ماہرین حرب نے ایجاد کی تھی لیکن وہاں یہ اصطلاح زیادہ تر سائبر وار کے لیے استعمال ہوتی ہے،گزشتہ تین چار سال کے دوران اگر کسی ملک میں اس اصطلاح کا سب سے زیادہ تذکرہ ہوا تو وہ پاکستان ہے کیونکہ پاکستان چلانے والوں کو یقین ہے کہ اس وقت پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار کے تحت پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا گیا ہے۔ 

یہ تشویش یوں بجا ہوسکتی ہے کہ جن ممالک میں نسلی، علاقائی، مذہبی، فرقہ وارانہ ، سماجی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر فالٹ لائنز موجود ہوں تو اس کے دشمن روایتی جنگ کی بجائے پروپیگنڈے کی جنگ کے آپشن کو استعمال کرتے ہیں اوربدقسمتی سے پاکستان ان فالٹ لائنز کے حوالے سے خودکفیل ہے۔ 

امریکی میجر شینن بیبی کا کہنا ہے کہ ففتھ جنریشن وار کا سب سے بڑا عامل محرومی ہے اور ماشاء اللہ پاکستان میں ہر طرف محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ اسی طرح ایک اور امریکی لیفٹیننٹ کرنل سٹینٹن لکھتے ہیں کہ ففتھ جنریشن جنگیں محرومی کے جزیروں میں لڑی جائیں گی اور ماشاء اللہ پاکستان اس حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔

ہمیں بتایا جاتا رہا اور شاید ٹھیک بتایا جاتا رہا کہ اس وقت امریکا ، انڈیا اور دیگر دشمن ممالک مل کر ففتھ جنریشن وار کے تحت پاکستانی ریاست کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہیں۔ 

بلوچستان، گلگت بلتستان ، پختونخوا اور کراچی اس کے خصوصی نشانے پر ہیں، یہاں کے عوام کی محرومیوں کو استعمال کرکے انہیں ریاست سے متنفر اور اس کے خلاف صف آرا کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

اسی طرح مذہب اور فقہ کی بنیاد پر بھی انتشار کو ہوا دی جارہی ہے، بے یقینی کی فضا پیدا کرکے پاکستانی معیشت تباہ کرنے پر کام ہورہا ہے، اس تناظر میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ پاکستانی سیاست ، عدالت اور بالخصوص میڈیا کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا اور ان پر ریاستی اداروں کی گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ضروری سمجھا گیا جبکہ پی ٹی آئی کی سرپرستی کے پیچھے بھی دیگر عوامل کے ساتھ یہ سوچ بھی کارفرما تھی۔

ہوسکتا ہے یہ کام قوم کے وسیع تر مفاد میں پوری نیک نیتی سے کیا گیا ہو لیکن بعض اقدامات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سے ففتھ جنریشن وار میں دشمن کاکام مشکل ہونے کی بجائے آسان ہورہا ہے۔ 

کہا جاتا ہے اور بالکل درست کہا جاتا ہے کہ میڈیا ففتھ جنریشن وار کا اصل ہتھیارہے اور نشانہ بھی، اب ففتھ جنریشن وار کے تناظر میں ضروری تھا کہ پاکستانی میڈیا کومزیدتوانا کرکے کسی نہ کسی حد تک انڈین اور امریکی میڈیا کے مقابلے کے قابل بنایا جاتا لیکن یہاں الٹ ہوا۔ 

ففتھ جنریشن وار کی آڑ میں قومی میڈیا کا بیڑہ غرق کردیا گیا، پہلے اسے ففتھ جنریشن وار میں اپنے ہتھیار کی بجائے دشمن کا ہتھیار باور کرایا گیا، پھر اسے تقسیم کیاگیا، پھر آپس میں لڑا کر اور پابندیاں لگا کر بے وقعت کیا گیا۔

انائیں بھی کارفرما رہیں، معتبر میڈیا پرسنز کی نوکریاں ختم کرکے یا پھر ان پر پابندیاں لگا کر صحافتی بونوں اور کٹھ پتلیوں کی سرپرستی کی گئی۔جنگ، ڈان اور نوائے وقت گروپ جیسے جینوئن صحافتی اداروں کو دبا کر ناجائز دولت کمانے والوں کے ذریعے میڈیا ادارے کھڑے کئے گئے کہ ان کواپنی مرضی کے مطابق چلایاجاسکتا تھا۔ 

چنانچہ جوں جوں ففتھ جنریشن وار زور پکڑ رہی تھی توں توں پاکستانی میڈیا سکڑنے کے ساتھ ساتھ کمزور اور بے اعتبار بھی ہوتا رہا، پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد سرکاری سطح پر قومی میڈیا کو معاشی لحاظ سے بھی تباہ کرنے کی شعوری کوششیں زور پکڑ گئیں۔


دباؤ کے دیگر حربوں کے بھرپور استعمال کے علاوہ میرشکیل الرحمان کی ناجائز گرفتاری تک کے انتہائی اقدامات اٹھائے گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا مین سٹریم میڈیا بیرونی ممالک تک پاکستان کی خبر دینے کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ خود پاکستانی شہری بھی خبر لینے اور آزاد تجزیہ جاننے کے لئے مغربی اور پڑوسی ممالک کے میڈیا یا پھر سوشل میڈیا کی طرف رجوع کرنے لگے۔ 

جوں جوں پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کمزور ہورہا ہے توں توں سوشل میڈیا پر انحصار بڑھ رہا ہے لیکن جھوٹ کی بھرمار کے باعث سوشل میڈیا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری طرف مغربی ممالک اور انڈیا کے بعد اب سعودی عرب، ایران اور ترکی بھی پاکستان کے اندر سوشل میڈیا کے میدان میں کود گئے ہیں۔ اب بے روزگار یا قدغنوں کے شکار صحافیوں کے پاس دو راستے ہیں۔ 

ایک یہ کہ وہ اپنے یوٹیوب چینل کھولیں یا پھر باہر کے ممالک کےڈیجیٹل میڈیا یا سوشل میڈیا سے روزی کمائیں۔یوں غور سے دیکھا جائے تو اس معاملے میں پاکستان کی خدمت کے جذبے کے تحت الٹا پاکستان کے دشمنوں کی خدمت کی گئی۔

اگر واقعی ففتھ جنریشن وار گرم ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ پاکستانی میڈیا جو اس جنریشن وار میں فرنٹ لائن فورس ہے ، اسے کمزور کرنے کی بجائے مزید توانا کیا جائے ،اس کی بقا کاا نتظام کیا جائے۔

صحافتی بونوں کی بجائے جینوئن صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا میں واپس لایا جائے۔اگر ففتھ جنریشن وار کی آڑ میں صرف سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور میڈیا کو دبانے کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہو۔ 

اس وقت چونکہ پاکستان اقتصادی اور تزویراتی (اسٹریٹیجک ) حوالوں سے چین کے قریب جارہا ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ففتھ جنریشن وار کے مقابلے کے لئے چینی ماڈل کو اپنانے کی کوشش ہورہی ہے اور چین کی طرح سیاست اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا رجحان فروغ پارہا ہے لیکن یہاں چینی ماڈل کو اپنانے کی کوشش تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگی کیونکہ چین کی معاشرتی ساخت اور سیاسی ماڈل پاکستان سے یکسر مختلف ہے۔

ایک وضاحت: عمران خان اور عثمان بزدار کی مدح سرائی کرنے والے منصور آفاق نےکل کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں کہا ہے کہ اب سلیم صافی بھی عثمان بزدارکے حق میں لکھ رہے ہیں۔ 

منصور آفاق میری طرح ’’بے ادب‘‘ نہیں، اردو ادب کے نزاکتوں سےشناسا ہیں بلکہ ادیبوں کے صف میں خود کوشامل سمجھتے ہیں۔ گزشتہ کالم طنزیہ انداز میں لکھا گیا تھا اور اس میں قطعا میں نے یہ نہیں لکھا کہ بزدار صاحب اہل ہیں بلکہ یہ لکھا کہ عمران خان صاحب کے نامزد کردہ محمود خان اور ان کے سرپرستوں کے نامزد کردہ جام کمال کی حکمرانی کا ان سے بھی زیادہ برا حال ہے۔ 

اب اگر میں یہ کہوں کہ فلاں فلاں لکھاری منصور آفاق سے بھی زیادہ خوشامدی ہیں تو کیا آفاق صاحب اسے اپنی تعریف سمجھیں گے؟۔ آفاق صاحب بزدار صاحب کی جتنی تعریف کرنا چاہیں،کرتے رہیں لیکن مہربانی فرما کر ان کی خوشنودی کے لئے ہم غریبوں کی رائے کی غلط تشریح نہ کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔