کراچی کا کچھ ہوگا بھی یا پھر ڈرامہ بازی

ایسی خوفناک بارش جس نے سب کچھ اُلٹ پلٹ دیا۔ کراچی پہ کئی بپتائیں بیتیں لیکن قدرت کے ہاتھوں ایسی تباہی کب کراچی والوں نے دیکھی تھی۔ سیلابوں میں دیہات کے دیہات بہہ جاتے تھے اور شہری، امرا موسم کے مزے اُڑاتے۔ لیکن اس بار طوفانی بارشوں سے کچی آبادیاں تو ڈوبنی ہی تھیں لیکن ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں کی بھی خیر نہ رہی۔

اسی لیے اسے قومی ایمرجنسی قرار دیا گیا۔ کراچی میں عمارتوں اور ناجائز قبضوں کے جنگلوں اور شہری سہولیات اور ماحولیات کی بربادی اور تگڑے اسٹیک ہولڈرز کی قبضہ گیری اور باہمی ٹکرائو کے ہاتھوں جو ہوا اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی بڑے میگا شہروں کا بندوبست سنبھالنا دو بھر ہو چلا ہے۔ لیکن جدید سائنس و ٹیکنالوجی، اچھی منصوبہ بندی اور موثر گورننس سے درپیش مسائل کا حل نکالا جا رہا ہے اور لوگ بھی اب بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں اور قصبات کا رُخ کر رہے ہیں۔

لیکن کراچی کا معاملہ ہی علیحدہ ہے۔ جتنے یہاں گو نا گوں نسلیاتی گروہ ہیں (جو اسے کاسموپولیٹن بناتے ہیں)، اُتنے ہی پیچیدہ مسائل۔ کبھی کراچی ایک مچھیروں، دستکاروں اور تاجروں کی خاموش بستی تھا اور اس کے آبادی 1947 میں چار لاکھ کے لگ بھگ تھی اور یہاں انگریزوں نے اپنی فوجی و تجارتی آئوٹ پوسٹ بنائی۔ مہاجروں کی آمد کے بعد اس شہر کی آبادی چھلانگیں مارتی پھیلتی چلی گئی۔

جو بنیادی انفراسٹرکچر برطانوی نوآبادکاروں نے تعمیر کیا تھا، چند دہائیوں میں یہ آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ تلے دب کر بے بس ہو گیا۔ اب نوبت یہ ہے کہ آبادی کے گھنے پن کے حساب سے کراچی میں فی مربع میل 63,000 نفوس ہیں اور ہر سال باہر سے 45,000 افراد کراچی میں سکونت اختیار کرتے ہیں۔ مہاجروں (48.52 فیصد) کی آمد کے بعد سے کراچی کا نسلیاتی جغرافیہ اتنا بدلا کہ یہ منی پاکستان کہلایا جہاں سندھیوں (7.22فیصد)، پشتونوں (11.42فیصد)، بلوچوں (4.34فیصد)، پنجابیوں (13.94فیصد)، سرائیکیوں (2.12فیصد)، گجراتیوں کے علاوہ بنگلہ دیشی، بہاری، افغانی، روہنگیاز، برمیز، یوغور اور جانے کون کون اور کہاں کے لوگ آباد ہو گئے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر معاشی ہجرت ہے جو لوگوں کو بڑے شہروں کی جانب کھینچتی ہے۔

پاکستان بننے پر کراچی دارالحکومت بنا اور ترقی کا سارا زور بھی وہیں رہا جس کا زیادہ تر فیض کراچی والوں ہی کو ملا۔ جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ بڑا دھچکا تھا۔ جس کا نتیجہ ایوب خان کے خلاف زبردست مزاحمت کی صورت میں نظر آیا۔ یہ کراچی والوں کی آمریت کے خلاف پہلی اور آخری مزاحمت تھی۔ پھر 1973کا آئین بنا اور صوبائی خود مختاری ملی اور سندھ کو وَن یونٹ کے خاتمے کے بعد اُس کی تاریخی شناخت واپس ملی۔ بعد ازاں سندھی زبان کے سرکاری اعتراف پر ہم نے ’’اُردو کا جنازہ ہے‘‘ کی رقعت آمیز آوازیں سُنیں۔

اور پھر ضیا الحق کی بھٹو دشمنی میں مہاجر کارڈ کو متحرک ہوتے دیکھا۔ نسلیاتی و لسانی تقسیم اور نفرت انگیزی نے لطیف بھٹائی کی سندھڑی کو خوفناک لسانی فسادات کے شعلوں میں لپٹتے دیکھا۔ پھر الطاف حسین کے کلٹ اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے ہاتھوں کراچی دہائیوں تک یرغمال بنائے رکھا گیا۔ دہشت گردی، بھتہ خوری کے پھیلائو اور بوریوں میں لاشوں کے ڈھیر لگتے دیکھے۔ جو میونسپل ادارے بنے بھی تو وہ اسی مافیا اور دیگر مافیائوں کے لے پالک ہوتے۔

اسے شہری آبادی اور دیہی جاگیرداروں کے جھگڑے کا نام بھی دیا گیا اور اندرونِ سندھ اور شہری علاقوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ اس خانہ جنگی میں مافیاز پیدا ہوئیں اور وہ بھتہ خوری، پانی کے ٹینکر سے چائنا کٹنگ اور بڑے پیمانے پر زمینوں کے ہتھیانے تک ہر طرح کے سماج دشمن دھندوں میں شامل ہو گئیں۔

اس سب کا خمیازہ سب سے زیادہ کراچی والوں نے بھگتا اور جو تباہی ہوئی اس کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں۔ شکر ہے کہ افواجِ پاکستان نے کراچی میں دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا اور امن بحال ہوا۔ فسطائیت کی کمر ٹوٹی اور ماحول کھلا ہوا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دیہی سندھ اور شہری سندھ کے مینڈیٹ متصادم ہیں اور درجن بھر کرپٹ مقامی ادارے کراچی کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔ کہاں کس کی عملداری شروع ہوتی ہے اور کہاں کس کی ختم، بس اسی پہ سیاسی مناظرے جاری ہیں اور کراچی کی انتظامی حالت اور شہری سہولیات ایک مستقل سوہانِ روح بن کے رہ گئے ہیں۔

سندھ حکومت کی بنیادی ترجیح اس کا دیہی حلقۂ انتخاب ہے اور کراچی سمیت دوسرے شہروں میں اس کی کارکردگی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف شہری علاقوں کے نمائندے بھی کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کے بے مقصد مجادلے میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

ایسے میں وزیراعظم عمران خان اِک نئے منصوبے کے ساتھ آج بوقتِ تحریر کراچی جا رہے ہیں۔ لیکن پہلے کی طرح وہ صوبائی حکومت سے کوئی مشاورت کر رہے ہیں اور نہ اُسے آن بورڈ لے رہے ہیں۔ خبر ہے کہ کورونا وائرس کے کنٹرول کے ادارے کی طرح کا کوئی ادارہ بنایا جائے گا جس کی صدارت کریں گے تو وزیرِ اعلیٰ سندھ، لیکن کنٹرول اُنہی کا ہوگا جنہوں نے کورونا کو روکنے کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم چلایا۔ شہری سیلاب کے دوران فوج کو سول انتظامیہ کی امداد کے لیے بلانا ایک مستحسن قدم تھا۔ ایمرجنسی کی حالت چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔

بہتر ہوگا کہ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے آئینی راستہ اختیار کیا جائے۔ اٹھارہویں ترمیم کے دائرے میں صوبائی حاکمیت قائم رہے اور مرکز صوبے کی ضروری مدد کرے۔ صوبہ سندھ کو بھی اور دیگر صوبوں کو بھی ایک موثر مقامی حکومتوں کا نظام لانا ہوگا اور اختیارات و ذرائع کو مقامی کونسل اور وارڈ تک منتقل کرنا ہوگا۔ البتہ اس امر کا خیال رکھنا ہوگا کہ کوئی ایک سیاسی یا نسلیاتی گروہ دوسروں کو نکال باہر نہ کرے۔

رہا ماسٹر پلان تو اس کو وقت درکار ہوگا اور اس پر کام کی ضرورت ہے۔ ایک ہفتے میں ماسٹر پلان تیار نہیں ہوتے، انہیں وقت لگتا ہے اور نہ ہی ہفتوں مہینوں میں بڑے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور بڑے مسئلوں کا بتدریج حل نکالا جائے۔

پانی کی فراہمی، نکاسیِ آب، غلاظت کی صفائی، بجلی کی سپلائی اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم کی پہل قدمی باعثِ انتشار بنے اور کراچی کے لوگ پھر منہ دیکھتے رہ جائیں اور ایک اور طوفانی بارش کا بے بسی سے انتظار کریں۔

کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور مستقبل میں کراچی سمیت سندھ کے ساحلی علاقوں کو سمندر میں غرق ہونے سے بچایا جائے۔ کراچی والو! تمہارا اللہ ہی حامی و ناصر ہے۔

مزید خبریں :