13 ستمبر ، 2020
گزشتہ کالم پولیس کے خلاف لکھا تو جواباً کچھ ایسی چشم کشا باتیں سنیں کہ تصویر کا دوسرا رخ نظر آنے لگا۔ احباب کہتے ہیں کہ عمران خان نے انتخابی مہم میں جو وعدے کئے تھے ان میں انہونی بات پچاس لاکھ گھر یا ایک کروڑ نوکریاں نہیں، انصاف کی فراہمی اور پولیس کلچر میں تبدیلی تھی۔
پولیس میں 7 دہائیوں سے جو کلچر پروان چڑھا، اُسے کرپٹ سیاست دانوں اور کرپٹ پولیس افسران کے گٹھ جوڑ نے ناسور بنا دیا۔
اہلِ سیاست نے پولیس کو اپنے لئے استعمال کیا اور انعام میں کالے کرتوت نظر انداز کر دیے۔ نظام کی چرخیوں میں 73برس کا زنگ ہے، راتوں رات یا 2، 3برسوں میں صاف نہیں ہو سکتا۔
سو پنجاب میں پہلی مرتبہ پولیس میں محکمانہ اصلاحات لانے کیلئے دو جہتی منصوبہ بندی کی گئی یعنی دو محاذوں پر کام شروع کیا گیا۔ چونکہ اولین ترجیح جرائم کی شرح میں کمی ہے۔ وزیراعلیٰ ریگولر بنیادوں پر ضلعی رپورٹس منگواتے ہیں کہ ماہانہ کار کردگی جانچ سکیں۔ اس کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر پولیس کی استعداد کار بڑھانے کیلئے بھی اقدامات کرنے لگے۔
بےشک ان دونوں محاذوں پر بیک وقت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے پنجاب کو ایسے آئی جی کی ضرورت رہی جو تحریک انصاف کے منشور کے مطابق پنجاب میں پولیس کلچر میں انقلاب برپا کر سکے۔
جتنے آئی جیز تبدیل ہوئے کوئی انتظامی معاملات میں بہتر تھا اور کوئی صرف اصلاحاتی ایجنڈے میں، تبدیلی آدھی آدھی ممکن نہیں تھی کہ استعداد کار بڑھائی جائے مگر کرائم ریٹ کم نہ ہو، سو آئی جیز تبدیل ہوتے رہے اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ نون لیگ کے پہلے دور حکومت میں 9 آئی جی تبدیل ہوئے تھے۔
ایک وقت تھا جب پولیس کے پاس گشت کرنے کیلئے بھی گاڑیاں نہیں تھیں۔ ایسے میں کرائم ریٹ کم کیا ہوتا؟
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے نئی پولیس موبائل وینز کی خریداری کی منظوری دی۔ پنجاب پولیس کیلئے 500گاڑیوں اور پنجاب ہائی وے پٹرولنگ کیلئے 47گاڑیوں کی خریداری کی اہم پیشرفت ہوئی کہ پولیس کا رسپانس ٹائم بہتر بنایا جا سکے۔ جو گاڑیاں قابلِ مرمت تھیں ان سمیت دیگر ٹرانسپورٹ کے خرچوں کی مد میں 250ملین روپے مختص ہوئے۔
پی او ایل کی مد میں 500ملین روپے تاکہ کسی تھانے میں کوئی ایس ایچ او اس لئے فارغ نہ بیٹھے کہ گاڑی میں ڈیزل نہیں۔ 250ملین روپے تحقیقاتی نظام کو بہتر اور تیز بنانے کیلئے مختص کئے گئے۔
پولیس اسٹیشنز کی بلڈنگز کی تعمیر کیلئے 700ملین روپے دیے گئے۔ ایس ایم بی آر کی جانب سے 101پولیس اسٹیشنز کیلئے زمین ٹرانسفر ہوئی۔ پنجاب پولیس میں 10ہزار خالی اسامیوں پر بھرتی کا آغاز کیا گیا اور مزید 10ہزار اسامیاں نکالی جارہی ہیں۔
میں نے دوسالہ کارکردگی رپورٹ دیکھی، ڈویلپمنٹس کا آن گراؤنڈ جائزہ بھی لیا۔ فری ایف آئی آر رجسٹر کروانے کا نظام آسان بنادیا گیا ہے، تھانوں میں فرنٹ ڈیسک قائم کردیے گئے ہیں۔ آئی جی پنجاب کو براہِ راست شکایت درج کرانے اور ان شکایات کے ازالے کیلئے 8787 ہیلپ لائن مکمل طور پر فعال کردی گئی ہے، ویب بیسڈ کمپلینٹ ریزولیشن سسٹم قائم کیا گیا ہے۔
لاہور میں ای چیک پوسٹس کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت شہر کے داخلی راستوں پر قائم ہونے والی یہ ای چیک پوسٹس نادرا، ایکسائز اور کریمنل ریکارڈ آفس سے منسلک ہیں۔ جو مشکوک افراد یا گاڑی کی فوری نشاندہی کرتی ہیں۔ ان چیک پوسٹس کو دیگر اضلاع میں بھی متعارف کروایا جارہا ہے۔
راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، سرگودھا، بہاولپور، گوجرانوالہ اور ڈی جی خان میں سیف سٹی پروجیکٹ کو فاسٹ ٹریک پر بنانے کا منصوبہ شروع ہے۔ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے قصور پولیس کی ری اسٹرکچرنگ مکمل کی جا چکی ہے۔
قصور میں سیف سٹی منصوبے کی تکمیل، اس منصوبے کے تحت بچوں کے ساتھ ہونے والے گھنائونے جرائم کا خاتمہ اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے۔ پنجاب میں 51 ماڈل پولیس اسٹیشنز کا قیام مکمل ہو چکا ہے جہاں فرنٹ اینڈ اور بیک اینڈ کو علیحدہ رکھا گیا ہے۔
پولیس خدمت مرکز گلوبل پورٹل کا اجرا مکمل ہے جس کے تحت دوسرے ممالک میں مقیم 90 لاکھ پاکستانی گھر بیٹھے صرف ایک کلک کے ذریعے مختلف خدمات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
پولیس خدمت مراکز کے موبائل یونٹس بھی متعارف کروائے جا چکے ہیں، 36اضلاع میں 44موبائل یونٹس، چوہنگ لاہور میں جدید طرز کے اسکول آف انویسٹیگیشن کا قیام جہاں آئی اوز کو ماڈرن انویسٹیگٹو ٹیکنیک سے لیس کیا جاتا ہے۔
تمام آئی اوز کو فرانزک انویسٹیگیشن کٹس فراہم کی جاچکی ہیں تاکہ تحقیقاتی عمل کو مزید موثر بنایا جاسکے ۔ Predictive Policingسے فائدہ اٹھانے کیلئے پی پی آئی سی تھری اور سائنٹفک انویسٹگیشن سے مدد لی جارہی ہے۔
پولیس تھانوں میں ٹارچر کے واقعات کے تدارک کیلئے تمام تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب مکمل کی جا چکی ہے، اس کے علاوہ 761ایس ایچ او آفیسرز کو بھی سی سی ٹی وی کے ذریعے مانیٹر کیا جارہا ہے۔
صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے Deweaponization مہم کا آغاز کیا گیا جس کے تحت 12ہزار ریڈز اور کومبنگ آپریشنز کئے گئے، 12سو اسلحہ لائسنس منسوخ کئے گئے اور 3ہزار اسلحہ کے ڈیلرز کی انسپیکشن کی گئی۔
پنجاب کے تمام اضلاع میں PUCAR 15کے انٹیگریٹڈ ایمرجنسی رسپانس سسٹم کو فعال بنایا گیا۔
پنجاب سیف سٹیز کی جانب سے لاہور کے داخلی اور خارجی راستوں پر ٹریفک کے بہائو کو بہتر بنانے کیلئے ای چیک پوائنٹس بنائے جارہے ہیں تاکہ لین چینج اور ٹریفک کے دوسرے مسائل کو بھی بہتر انداز میں کنٹرول کیا جاسکے اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر کالم کی طوالت کے سبب درج نہیں کر سکتا۔
بہر حال یہ طے ہے کہ پنجاب پولیس میں اصلاحات پر کام جاری ہے۔ یقیناً نئے آئی جی انعام غنی سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بڑی توقعات ہیں۔