21 ستمبر ، 2020
انسداد اغواء برائے تاوان کے محکمے (اے وی سی سی) میں ہی مغوی کو حبس بےجا میں رکھے جانے اور اُسے رکھنے کےلیے رقم بھی ہتھیانے کا انکشاف ہوا ہے۔
کراچی میں اغوا برائے تاوان کی روک تھام کیلئے بنائے گئے پولیس کے خصوصی محکمے نے اُلٹی گنگا بہادی۔ ذرائع کے مطابق کراچی سے امیر علی نامی شہری اغواء ہوا جسے اے وی سی سی ٹیم نے 30 جولائی کو کوئٹہ سے بازیاب کرایا۔
امیر علی کئی فیکٹریوں کا مالک ہے لیکن منشیات کی لت نے اُسے کسی قابل نہیں چھوڑا، اس کے گھر والے مالی مشکلات کا شکار ہیں، اس لیے وہ امیر علی کی فیکٹری میں موجود اسکریپ بیچنا چاہ رہے تھے۔
انہوں نے مبینہ طور پر اے وی سی سی ٹیم کو رشوت دی جس نے امیر علی کو بازیابی کے بعد گھر بھیجنے کے بجائے اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ اِس دوران امیر علی کے گھر والوں نے جن تاجروں کو اسکریپ بیچا، اے وی سی سی ٹیم نے اُن کو بھی اُٹھایا اور رشوت لے کر چھوڑا۔
قانون کے مطابق اے وی سی سی اہلکار صرف اغواء برائے تاوان کے مقدمات پر ہی کام کرسکتے ہیں لیکن جو کچھ ہوا، اُس کا نوٹس کراچی پولیس چیف نے بھی لے لیا ہے۔
جن اہلکاروں پر الزام ہے، اُن کے خلاف ڈی آئی جی ایسٹ کی سربراہی میں ضلع وسطی اور اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کے ایس ایس پیز انکوائری کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اے وی سی سی اہلکار مذموم مقاصد کیلئے مغوی امیر علی کو بینک بھی لے کر گئے تھے۔
اغواء برائے تاوان کے اسی مقدمے کے ایک ملزم نے گزشتہ دنوں اے وی سی سی لاک اپ میں پر اسرار طور پر مبینہ خود کشی بھی کرلی تھی، اس گھمبیر معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور کراچی پولیس چیف نے انکوائری کمیٹی سے 15 دن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔