22 ستمبر ، 2020
وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزراء کو غیرضروری بیانات دینے سے روک دیا۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ملکی معاشی و سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اورکئی اہم فیصلے کیے گئے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے وزراء کو غیر ضروری بیانات دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ کوئی وزیرفضول بات نہ کرے، وزیر کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ کوئی وفاقی وزیر حساس اور مذہبی معاملات پربات نہیں کرے گا۔
ذرائع کے مطابق کابینہ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے شیریں مزاری کے بعض بیانات پر اعتراض کیا اور کہاکہ سب سے زیادہ شیریں مزاری بولتی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ معاملہ انرجی کمیٹی کی سمری سے شروع ہوا، انرجی کمیٹی کی سمری اجلاس شروع ہونے کے بعد سرکولیٹ کی گئی جس پر شیریں مزاری نے اعتراض کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ شیریں مزاری نےکہاکہ اگر سمری وقت پر سرکولیٹ نہیں ہوگی تو ہم پڑھ نہیں پائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شیریں مزاری کی یہ بات اسد عمر کو گراں گزری۔
کابینہ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال اور اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) پر گفتگو کی گئی۔
ذرائع کے مطابق کابینہ اجلاس میں سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی صحت کا بھی چرچہ رہا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی اے پی سی سے کوئی خطرہ نہیں، اے پی سی کے مقاصد سے پوری قوم آگاہ ہے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں کابینہ ارکان نے کہا کہ اے پی سی ابو بچاؤ مہم ہے۔
دوسری جانب خواتین اوربچوں کے تحفظ سے متعلق بل کے مسودے پر مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان اور مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے کابینہ کو بریفنگ دی۔
ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم نے ہدایت کی کہ بل فوری طورپرکابینہ کمیٹی برائے قانونی سازی میں پیش کیا جائے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عورتوں اور بچوں سے جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو سخت سزائیں دیں گے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں گرین ایریا پر جیل کی تعمیر پر بھی ناراضی کا اظہار کیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے، گرین ایریا کا تحفظ حکومت کی ترجیح ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے چیئرمین کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو معاملے کی فوری تحقیقات کی ہدایت کی۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، اٹارنی جنرل عدالت کو وفاقی حکومت کے مؤقف سے آگاہ کریں۔