Time 24 ستمبر ، 2020
بلاگ

سقوطِ کشمیر اور گلگت بلتستان

فائل فوٹو

شور شرابہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد یہ شور شرابہ مار دھاڑ میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ اے پی سی کے فوراً بعد مولانا فضل الرحمٰن کو نیب نے یکم اکتوبر کو طلب کر لیا ہے۔ نیب کی طرف سے مولانا کو طلب کرنا چنگاریوں کو ہوا دینے کے مترادف نہیں بلکہ چنگاریوں پر پٹرول ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ چنگاریاں اے پی سی میں نواز شریف کی تقریر میں بڑی واضح تھیں۔

ان چنگاریوں کو نواز شریف کا غم و غصہ قرار دیکر نظرانداز کیا جا سکتا ہے لیکن اے پی سی کے اعلامیے کو کیسے نظرانداز کیا جائے جسے مولانا فضل الرحمٰن نے پڑھا؟ یہ اعلامیہ ایک درجن کے قریب سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے جاری کیا گیا اور اس اعلامیے کے 26 نکات میں وہی کچھ تھا جو نواز شریف کی تقریر میں تھا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ اعلامیے کی دوسری قرارداد میں اسٹیبلشمنٹ سے سیاست میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟

میں اس اعلامیے کی ساتویں قرارداد سن کر ہل گیا جس میں موجودہ حکومت کو سقوطِ کشمیر کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ چودھویں قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں مقررہ وقت پر صاف و شفاف اور بغیر مداخلت کے انتخابات کرائے جائیں اور انتخابات میں کوئی مداخلت اس لئے نہ ہو کہ کوئی بھی انتخابات کی شفافیت پر اعتراض نہ کر سکے۔

اجلاس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ قبائلی علاقہ جات کو نوگو ایریاز بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے، لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے اور ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اپوزیشن کے نئے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اعلامیے میں ان تمام نکات کا ذکر ہے جنہیں ہم پاکستانی ریاست کی فالٹ لائنز یا کمزوریاں قرار دے سکتے ہیں۔

ایک طرف نیا اپوزیشن اتحاد 5 اگست 2019کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے وہاں باقاعدہ بھارت کے قبضے کو سقوطِ کشمیر قرار دے رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان کی طرف سے یہ تجویز آ گئی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا جائے۔ میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ اس حساس معاملے پر کچھ حکومتی شخصیات نے غیرمحتاط بیانات دیکر صرف مقبوضہ کشمیر نہیں بلکہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت پاکستان سے بہت محبت کرتی ہے اور پاکستان میں شامل ہو کر وہ حقوق حاصل کرنا چاہتی ہے جو 1973 کے آئین میں موجود ہیں لیکن اسی آئین کی دفعہ 257 میں ریاست جموں و کشمیر کا ذکر ہے اور اس ریاست میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے۔ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا مطلب مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہوگی۔

بھارت نے 5 اگست 2019 کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی لیکن کیا پاکستان بھی بلا سوچے سمجھے بھارت کے راستے پر چلے گا؟ پاکستان کو گلگت بلتستان کے عوام کو ضرور مطمئن کرنا چاہئے لیکن ایسے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں حکومت پاکستان کے خلاف بےچینی پھیل جائے۔

گلگت بلتستان کے لوگ بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور جموں و کشمیر کے لوگ بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے دونوں کو ساتھ لیکر چلنا ہے، دونوں کو آپس میں لڑانا نہیں ہے۔

گلگت بلتستان میں بہت سے لوگ اپنی علیحدہ شناخت چاہتے ہیں۔ وہ خود کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ نہیں سمجھتے۔ اس علاقے کو ڈوگرہ حکومت کے دور میں زور آور سنگھ نے 1840میں فتح کرکے ریاست جموں و کشمیر میں شامل کیا۔ 1947میں بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ اس علاقے کا گورنر تھا لیکن کرنل مرزا حسن خان سمیت اس علاقے کے مسلمان فوجی افسران اور جوانوں نے بغاوت کرکے گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا اور اس علاقے کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے محتاط رویہ اختیار کیا اور 16جنوری 1948کو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے کہا کہ گلگت بلتستان دراصل ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔

1947سے پہلے اور بعد میں ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی میں اس علاقے کی نمائندگی موجود تھی لیکن 1947کے بعد اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر زیادہ توجہ نہ دی گئی۔ 1951میں کشمیری رہنما چودھری غلام عباس نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور یہاں مسلم کانفرنس کی تنظیم بنائی لیکن پاکستان کی بیورو کریسی نے کشمیری قیادت کو یہاں قدم نہیں جمانے دیے۔ مسلم کانفرنس کے مقامی رہنما محمد عالم کو استور میں گرفتار کر لیا گیا تو عوام نے حوالات کا دروازہ توڑ دیا جس کے بعد یہاں آزادی اظہار کو محدود کر دیا گیا۔ گلگت بلتستان کی آزادی کے ہیرو کرنل مرزا حسن خان کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔

رہائی کے بعد انہوں نے گلگت لیگ قائم کی لیکن 1958کے مارشل لا میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید گلگت میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اس علاقے کے حقوق کیلئے یہاں آکر آواز بلند کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما مقبول بٹ اور امان اللہ خان 1970میں بار بار گلگت آئے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

1973میں ایک سینئر بیورو کریٹ اجلال حیدر زیدی نے استور آکر امان اللہ خان کو پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کا صدر بننے کی پیشکش کی اور بتایا کہ ہم اس علاقے کو پاکستان کا صوبہ بنا رہے ہیں تو امان اللہ خان نے انہیں پوچھا آپ اقوامِ متحدہ کی قرارداد کا کیا کریں گے؟ اجلال حیدر زیدی لاجواب ہو گئے۔ 2009میں پیپلز پارٹی نے اس علاقے کو ایک علیحدہ انتظامی یونٹ بنا کر کچھ حقوق دینے کی کوشش کی جسے سیلف گورننس کا نام دیا گیا لیکن کنٹرولڈ ڈیموکریسی لوگوں کا احساس محرومی ختم نہ کر سکی۔

نواز شریف کے تیسرے دور میں پھر سے اس علاقے کو صوبہ بنانے کی بات چلی تو سرینگر سے حریت کانفرنس کی قیادت نے آہ وبکا شروع کر دی لہٰذا نواز شریف رک گئے۔ اب دوبارہ اسی تجویز پر عمل کرنے کا منصوبہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ صوبہ بنائے بغیر گلگت بلتستان کا احساس محرومی ختم نہیں کر سکتے؟

آپ نے بلوچستان کو 1970میں صوبہ بنایا لیکن وہاں احساس محرومی آج بھی ختم نہیں ہوا۔ فی الحال کچھ عبوری اقدامات کے تحت صرف اس علاقے کو نہیں بلکہ پاکستان کے ان تمام علاقوں کے عوام کا احساس محرومی ختم کرنے کی ضرورت ہے جن کا ذکر اے پی سی اعلامیے میں موجود ہے۔

گزارش یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر آپ نے اس علاقے کو صوبہ بنا دیا تو یہ بھی سقوط کشمیر کہلائے گا اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح بھارت نے اپنے آئین میں سے 370 ختم کر دیا پاکستان نے 257 ختم کر دیا لہٰذا مودی اور عمران کہیں ایک ہی صف میں نہ کھڑا ہو جائیں!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔