24 ستمبر ، 2020
سپریم کورٹ نے تہرے قتل کے کیس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) حیدرآباد کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار دے دی اور پولیس کو 2 ہفتوں میں دونوں ملزمان کو گرفتار کرنے کی آخری مہلت دے دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ملزمان گرفتار نہ ہوئے تو ڈی آئی جی صاحب آپ عہدے پر نہیں رہیں گے،کاغذوں سے باہر نکل کر کام بھی کریں۔
چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پولیس افسران کی جانب سے کوششیں کرنے کی بات پر شدید برہمی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ آپ کی کوششیں کیا زمین میں گڑھے کھودنے کے برابر ہیں؟ آپ کو جو کام دیا گیا ہے وہ کرکے آئیں، عدالت میں پولیس نے جو رپورٹ دی وہ ایک رام کہانی ہے۔
اس موقع پر ڈی آئی جی حیدرآباد نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے مزید وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو مفرور ملزمان کو اگلے ہفتے تک گرفتار کرکےلائیں آپ کس پولیسنگ کی بات کررہے ہیں؟ آپ ریاست کی مشینری ہیں، پولیس والے کاغذوں سے باہر نکلیں، دو ملزمان مفرور ہیں،گرفتار کریں، آپ اس عہدے کےقابل نہیں اگر ملزمان گرفتارنہیں کیےتو نوکری سےفارغ ہو جائیں گے۔
خیال رہے کہ درخواستگزار ام رباب کے والد، چچا اور دادا کو بااثر ملزمان نےقتل کردیا تھا جنہوں نے مقدمہ منتقلی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیا۔
17 جنوری 2018 کو ضلع دادو کے تعلقہ میہڑ میں تین افراد کے قتل کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیدو اور ان کے بھائی برہان چانڈیو سمیت سات افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔
مقتولین کے لواحقین کا الزام تھا کہ ایم پی اے سردار خان چانڈیو کے کہنے پر برہان چانڈیو نے پولیس پروٹوکول کی موجودگی میں مختار چانڈیو، کابل چانڈیو اور کرم اللہ چانڈیو کو فائرنگ کرکے قتل کیا۔