01 اکتوبر ، 2020
نام تو اُن کا نواب مرزا خان تھا لیکن تخلص ’’داغ‘‘ تھا اور داغ دہلوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا تخلص داغ اِس لئے رکھا کہ وہ اپنے آپ کو بےداغ نہیں سمجھتے تھے۔ خوبصورت چہروں کے دلدادہ تھے اور چلمنوں کے پیچھے چھپے چہروں کے ساتھ آنکھ مچولی میں یہ مشہور شعر کہہ ڈالا:
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
داغ کا یہ رومانوی شعر آج ایک سیاسی شعر بن چکا ہے۔ یہ شعر سُن کر ذہن میں کوئی خوبصورت چہرہ جلوہ افروز نہیں ہوتا بلکہ نظروں کے سامنے ایسے چہرے گھومنے لگتے ہیں جو ہماری سیاست میں صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔
ہماری سیاست کا حال بھی عجیب ہے۔ ہر دوسرا چہرہ داغدار ہے۔ اگر چہرے پر داغ نظر نہیں آتا تو دامن داغدار اور اگر دامن بھی صاف ہے تو نیب نامی ایک رقیبِ سیاست گاہے گاہے کوئی نہ کوئی داغ اُچھالتا رہتا ہے اور داغوں کی اِس بہار میں عوام الناس کو داغ اچھے لگنے لگے ہیں۔
جس دامن پر کوئی داغ نظر نہ آئے تو اُسے چلمنوں کے پیچھے چھپے کسی چہرے کا منظورِ نظر قرار دیا جانے لگتا ہے۔ داغ دہلوی آج زندہ ہوتے تو پاکستانی سیاست کا حال دیکھ کر دل تھام لیتے کیونکہ اس کوچے میں داغوں کی بہار نہیں بلکہ بھرمار نے ہر کسی کو سراپا داغ بنا دیا ہے۔
لندن میں مقیم سابق وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں ایک حکم جاری کیا ہے جس کا مقصد چلمنوں کے پیچھے چھپے چہروں سے بلااجازت میل ملاقات بند کرنا ہے۔
یہ میل ملاقات ہماری سیاست کا ایک معمول رہا ہے لیکن نواز شریف کی طرف سے اس میل ملاقات پر پابندی سے صاف پتا چلتا ہے کہ وطن عزیز کی سیاست میں بات داغوں سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ اس بات کا پتا تو سب کو اسی دن لگ گیا تھا جب نواز شریف نے اپوزیشن جماعتوں کے ایک اجلاس سے وڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کیا تھا جسے اُن کے مخالفین نے ریاستی اداروں کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا۔
اس خطاب کے بعد کچھ حکومتی زعماء کا خیال تھا کہ اب نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اپنی سیاسی راہیں جُدا کر لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ شہباز شریف کا سیاسی بیانیہ اپنے بھائی کے مزید قریب ہو گیا۔
شہباز شریف سے اُن کے کئی ساتھی پوچھتے رہے کہ نواز شریف کے موقف میں اتنی زیادہ سختی کیوں آ گئی ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ ریاستی اداروں کے ساتھ براہ راست جنگ کا فائدہ عمران خان اٹھائیں گے؟
شہباز شریف اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرتے رہے کہ ہماری لڑائی ابھی بھی اداروں کے ساتھ نہیں بلکہ عمران خان کے ساتھ ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں عام تاثر یہی ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی ناکام ہو گئی اور دو سال میں اُن کی دوسری مرتبہ گرفتاری کے بعد اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے حکومت کے خلاف جلسوں کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
اس ناچیز کو لندن سے یہ خبر ملی ہے کہ کچھ عرصہ قبل نواز شریف کو یہ بتایا گیا کہ شہباز شریف چلمنوں کے پیچھے چہروں کو یہ کہتے رہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو رہا نہ کیا جائے لیکن شہباز شریف کی خواہش کے برعکس نواز شریف علاج کے لئے لندن پہنچ گئے اور مریم نواز بھی رہا ہو گئیں۔
جس نے بھی نواز شریف کو یہ بات بتائی اُس نے نواز شریف کو یقین دلا دیا کہ اُنہیں اپنے بھائی کے ساتھ لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شہباز شریف کا جو بھی بیانیہ رہا ہے، بڑا کھلا اور واضح رہا ہے۔
وہ سالہا سال سے اداروں کے ساتھ مل جل کر چلنے کے حامی ہیں لیکن اُنہوں نے کبھی اپنے بڑے بھائی کے خلاف بغاوت کا نہیں سوچا۔ نواز شریف یہ بھی جانتے تھے کہ شہباز شریف نے اُنہیں علاج کے لئے بیرون ملک بھجوانے کی خاطر بہت منت سماجت کی تھی وہ کیسے کسی کو یہ کہہ سکتے تھے کہ نواز شریف کو رہا مت کرو؟ پھر شیخ رشید احمد نے چلمنوں کے پیچھے ہونے والی کچھ ملاقاتوں کے راز افشا کرنا شروع کر دیے تو مولانا غفور حیدری بھی میدان میں آ گئے۔
اُن کا یہ کہنا تو ٹھیک ہے کہ ایک ملاقات میں اُنہیں آزادی مارچ سے روکا گیا تھا لیکن وہ اپنے اس دعوے پر ذرا نظرثانی کر لیں کہ ہمیں کہا گیا کہ ہم نواز شریف کے خلاف جو کر رہے ہیں اُس میں آپ مداخلت نہ کریں۔ اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ اکرم درانی بھی موجود تھے۔
شیخ رشید احمد بھی اِن ملاقاتوں کی نامکمل اور ادھوری خبریں پھیلا رہے تھے اور اپوزیشن کی طرف سے اِن ملاقاتوں کی جو وضاحت سامنے آئی اُس پر بھی اتفاق نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان خبروں کو پھیلانے کا مقصد اپوزیشن کو آپس میں لڑانا ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے لہٰذا نواز شریف نے چلمنوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی۔
نواز شریف نے تو پابندی عائد کر دی لیکن پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں نے اس معاملے پر چُپ سادھ رکھی ہے۔ ویسے پیپلز پارٹی والے بھی نواز شریف کے اس فیصلے پر کافی غور و فکر کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما نے زبانِ انگریزی میں جو تبصرہ کیا اُسے داغ دہلوی کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ:
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
نجانے پیپلز پارٹی والوں نے کون سے وعدے پر اعتبار کیا لیکن ابھی تک اُنہوں نے چلمنوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں پر پابندی نہیں لگائی، اُنہوں نے صرف یہ فرمایا کہ جہاں شیخ رشید احمد ہوں گے، ہم وہاں نہیں جائیں گے۔ تو شیخ صاحب تو قومی اسمبلی میں بھی بیٹھتے ہیں کیا آپ وہاں بھی نہیں جائیں گے؟
شہباز شریف کے بعد اپوزیشن کی کچھ اور شخصیات کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی قیادت کو گرفتار ہونے سے حالات بہتر نہیں مزید خراب ہوں گے۔ وزیراعظم صاحب سے کوئی یہ تو پوچھے کہ اگر آپ ساری اپوزیشن کو جیل میں ڈال دیں اور میڈیا میں تمام تنقیدی آوازوں کا گلا گھونٹ دیں تو کیا پاکستان کے سب مسائل حل ہو جائیں گے؟
سب کو جیل میں ڈال کر اور سب کا گلا دبا کر بھی آپ عوام کو مہنگائی اور بےروزگاری سے نجات نہ دلا سکے تو پھر کیا کریں گے جناب؟ مجھے پتا ہے کہ آج کل عمران خان کو ہماری باتیں بہت بُری لگتی ہیں کیونکہ آج کل وہ اقتدار والے نواز شریف بنے ہوئے ہیں۔
نواز شریف اقتدار میں تھے تو اُنہیں بھی ہماری باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ فیصلہ آپ خود کر لیں کہ عمران خان کا انجام کیا ہو گا؟ وہ داغ کا یہ مصرعہ دہراتے پھریں گے، غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔