قائد حزب اختلاف کی گرفتاری

فوٹو: فائل 

شہباز شریف کو آمدنی سے زائد اثاثے اور منی لانڈرنگ کے اس کیس میں ابھی پہلی بار ہی ضمانت قبل از گرفتاری ملی تھی، تو نیب نے اعلان کر دیا کہ ضمانت منسوخ ہوتے ہی شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جائے گا، اس کے بعد سماعت کی مختلف تاریخوں میں انہیں توسیع ملتی رہی تاہم ہر پیشی پر ہائی کورٹ کے باہر معمول کے مطابق ان کی گرفتاری کی تیاری مکمل تھی۔

لیکن گرفتاری کی نوبت پیر کے روز آئی، مخالف سیاسی جماعتوں کی اے پی سی کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریاں ہوں گی، پہلی گرفتاری شہباز شریف کی ہوئی ہے تو آصف علی زرداری نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب ہم سب اندر ہوں گے، مولانا فضل الرحمٰن کو بھی نیب نے طلب کر رکھا ہے، دیکھیں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔

اِس سے پہلے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت قبل از گرفتاری دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب ریفرنس کا مقصد ان کی زبان بند کرنا ہے۔ 

خواجہ برادران کے کیس میں سپریم کورٹ بھی یہ کہہ چکی ہے کہ نیب صرف یک طرفہ کارروائی کر رہا ہے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ اکثریتی پارٹی کے خلاف اب تک کتنے ریفرنس فائل کئے جا چکے ہیں لیکن نیب حکام اور پراسیکیوٹر اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔

اعلیٰ عدالتیں بار بار ایسے ریمارکس دے چکی ہیں کہ تفتیش کے مرحلے میں گرفتاری غیرضروری ہے لیکن اِن فیصلوں اور ریمارکس کے باوجود گرفتاریاں جاری ہیں۔ 

شہباز شریف کی تازہ گرفتاری بھی اس کی مثال ہے، عام خیال یہ ہے اور کئی وفاقی وزراء اور خصوصاً شیخ رشید بھی بار بار یہ بات کہتے رہتے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے سیاسی خیالات میں مطابقت نہیں ہے، شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے برعکس مفاہمت کی سیاست چاہتے ہیں۔ 

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) دوحصوں میں بٹ جائے گی، ایک حصہ نواز شریف کی سیاست کرے گا اور شہباز شریف کی قیادت میں نئی مسلم لیگ بن جائے گی،لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد مفاہمت کا جذبہ باقی رہے گا یا نہیں؟ 

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے تو کہہ دیا ہے کہ شہباز شریف کو اِس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔

اس کے باوجود ’’نون‘‘ اور ’’شین‘‘کی گردان جاری ہے، نیب میں سیاسی رہنماؤں کے خلاف جو مقدمات چل رہے ہیں، اُن میں ابھی تک 2کے فیصلے ہوئے ایک فیصلہ کرنے والے جج بھی یہ تسلیم کر چکے کہ اْن پر فیصلے کے لئے دباؤ تھا۔ 

ان کی ویڈیو بھی بہت کچھ کہہ رہی ہے، وہ اب برطرف بھی ہو چکے،لیکن فیصلہ برقرار ہے جو کئی سوالات اٹھا رہا ہے، ایسے فیصلے اگر عدالتوں ہی میں زیر بحث ہوتے تو بھی ایک بات تھی،لیکن جس طرح ملزموں کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ محل ِ نظر ہے۔ وزراء کی ٹیمیں میڈیا پر عدالتی فیصلوں پر من پسند تبصرے کرتی ہیں، کوئی دوسرا ان پر اظہارِ خیال کرے تو اْنہیں پسند نہیں آتا اور فوراً ’’توہین، توہین‘‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔

اس طرزِ عمل نے یہ فضا پیدا کر دی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو چوروں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ کہہ رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کو سلیکٹڈ اور دھاندلی کی پیداوار قرار دے رہی ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی تقسیم کی خلیج بہت بڑھ گئی ہے اور آنے والے دِنوں میں اس میں کمی آتی محسوس نہیں ہوتی۔

اپوزیشن جماعتیں حکومت پرالزام لگاتی ہیں کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے،اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف تو مقدمات بنائے جا رہے ہیں، لیکن جن معاملات کا تعلق حکومت سے ہے، اُن پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ احتساب کے ادارے کا سارا زور اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں پر ہی کیوں ہے، جومقدمات بنے ہیں وہ صرف اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ہی کیوں بن رہے ہیں۔

حکومت کے جو اسکینڈل سامنے آ رہے ہیں اُن میں کسی کی گرفتاری کیوں نہیں ہو رہی؟۔ ایک وفاقی وزیر اور اُن کے بھائی کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی تھیں وہ روک لی گئیں۔ 

مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بی آر ٹی پشاور کے معاملات پُراسرار طور پر دبا دیے گئے، یہاں تک کہ حکمران جماعت کے خلاف فارن فنڈنگ کی جو تحقیقات ہو رہی ہیں، اُن میں بھی تاخیر کی جا رہی ہے یہ الزام ایک ایسے شخص نے لگایا ہے جو پارٹی کا بنیادی رکن اور بہی خواہ ہے۔ 

یہ تمام امور اِس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ احتساب یک طرفہ اور سلیکٹڈ ہے۔ اگر یہ احتساب بلاتفریق ہو رہا ہوتا تو حکومتی پارٹی کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے چند ہفتوں کے بعد انہیں کلین چٹ تو نہ مل جاتی، اِس لئے اپوزیشن اگر شہباز شریف کی گرفتاری کو اے پی سی کا نتیجہ قرار دیتی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ صداقت تو ہو گی۔

دوسری جانب پیمرا نے مسلم لیگ (ن )کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے، اس سے قبل پچھلے سال کرنل (ر) انعام الرحمٰن نے پیمرا سے کہا تھا کہ مشرف اور طاہر القادری مفرور ہیں ان کےانٹرویو بند کرائے جائیںتو پیمرا نے جواب میں کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19کے تحت ہر شہری کو آزادیٔ اظہار حاصل ہے لیکن نواز شریف کے معاملے پر پیمرا کو آرٹیکل 19بھول گیا۔ پاکستان میں میڈ یا آزاد نہیں یہ بیانیہ آج اپنی موت آپ مر گیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔