05 اکتوبر ، 2020
یہ خبر مجھ ناچیز کے لئے کوئی خبر نہ تھی۔ پہلے سے اندازہ تھا کہ لندن میں مقیم سابق وزیراعظم نواز شریف ہر صورت میں اپوزیشن جماعتوں کے نئے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو بنوا کر رہیں گے۔ 3اکتوبر کو جب یہ اعلان سامنے آیا کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہوں گے تو مجھے اکتوبر 2002میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ایک ملاقات یاد آ گئی جس کا موضوع مولانا فضل الرحمٰن تھے۔
2002کے انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ نوابزادہ صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیا اور مشرف مخالف جماعتوں کو قائل کر لیا کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بنایا جائے تو ناصرف وفاق میں بلکہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی مشرف مخالف اتحاد کی حکومت قائم ہو جائے گی۔
آصف علی زرداری اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید تھے لیکن مولانا فضل الرحمٰن کو وزیراعظم بنانے پر راضی تھے۔ دبئی میں مقیم محترمہ بےنظیر بھٹو قائل نہ ہو پارہی تھیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان مجھے بتا رہے تھے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن وزیراعظم بن گئے تو بےنظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کی پاکستان واپسی ممکن ہو جائے گی اور آخر کار ہم جنرل پرویز مشرف کو بھی نکال باہر کریں گے۔
میں نے بڑی سادگی سے پوچھا کہ نوابزادہ صاحب ایم ایم اے کو کچھ لوگ مُلا ملٹری الائنس کیوں کہتے ہیں؟ نوابزادہ صاحب نے قدرے تلخ لہجے میں کہا کہ جب پیپلز پارٹی کو ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق سے لڑنا تھا تو اُس وقت بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے مجھے کہا کہ مولانا مفتی محمود کو بھی بحالی جمہوریت کی تحریک میں شامل کریں اور مولانا صاحب راضی بھی ہو گئے لیکن 14اکتوبر 1980کو اُن کا انتقال ہوگیا۔ اُن کے برخوردار مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے والد کے وعدے کا پاس رکھا اور جب ایم آر ڈی بنی تو وہ نہ صرف اس میں شامل ہوئے بلکہ انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
نوابزادہ صاحب نے کہا کہ 1988میں جب آئی جے آئی بنائی گئی تو مولانا فضل الرحمٰن سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ایم آر ڈی کا حصہ بننے پر جمعیت علماء اسلام میں گروپ بندی ہو گئی، آئی جے آئی میں مولانا سمیع الحق چلے گئے، مولانا فضل الرحمٰن نے انکار کر دیا۔ اب اگر 2002کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے تو اسے مُلا ملٹری الائنس کہنا زیادتی ہے۔ پھر نوابزادہ صاحب بتانے لگے کہ 1967میں جنرل ایوب خان کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنایا گیا تو انہیں پہلی دفعہ کسی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا تھا۔
اس اتحاد میں عوامی لیگ شامل نہ تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اس اتحاد میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی شامل کرلیا اور اس اتحاد کا نام ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی رکھا گیا۔ اس اتحاد کے قیام کا اعلان 8جنوری 1969کو ہوا اور جنرل ایوب خان نے 25مارچ 1969کو استعفے کا اعلان کر دیا۔ نوابزادہ صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ میں نے ایوب، یحییٰ اور ضیاء کے زوال میں اہم کردار ادا کیا، اب میں مشرف کو نکال کر مرنا چاہتا ہوں لیکن اس کیلئے مولانا فضل الرحمٰن کو وزیراعظم بنانا ضروری ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن 2002میں وزیراعظم نہ بن سکے اور کچھ عرصے کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان اس دنیا سے چلے گئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ نوابزادہ صاحب پہلی دفعہ جس اتحاد کے سربراہ بنے تو اس کا نام پی ڈی ایم تھا اور مولانا فضل الرحمٰن بھی پہلی دفعہ ایک سیاسی اتحاد کے سربراہ بنے ہیں تو اس کا نام بھی پی ڈی ایم ہے۔ نوابزادہ صاحب نے پی ڈی ایم میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کو شامل کرکے جنرل ایوب خان کو حواس باختہ کر دیا تھا۔
اگر مولانا فضل الرحمٰن بھی پی ڈی ایم کی کامیابی چاہتے ہیں تو انہیں اس اتحاد کو وسیع کرنا ہوگا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے اتحادپی ڈی ایم میں جماعت اسلامی شامل تھی لیکن مولانا فضل الرحمٰن کے موجودہ اتحاد پی ڈی ایم میں جماعت اسلامی شامل نہیں ہے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کی جدوجہد ایوب خان کے خلاف تھی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جدوجہد عمران خان اور اُن کے سرپرستوں کے خلاف ہے لیکن جب ہم نوابزادہ صاحب کی پی ڈی ایم اور مولانا صاحب کی پی ڈی ایم کے مطالبات کا جائزہ لیتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ 1967کی پی ڈی ایم بھی نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی، 2020کی پی ڈی ایم بھی نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔
1967کی پی ڈی ایم بھی میڈیا کی آزادی اور عدلیہ کی خودمختاری کا مطالبہ کر رہی تھی اور 2020کی پی ڈی ایم بھی یہی مطالبات کر رہی ہے۔ 1967میں صدارتی نظام تھا اور اس وقت کی پی ڈی ایم پارلیمانی نظام کا مطالبہ کر رہی تھی، 2020میں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے لیکن آج کی پی ڈی ایم وارننگ دے رہی ہے کہ صدارتی نظام قبول نہیں کریں گے۔ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ 2020کی اپوزیشن وہی مطالبات کیوں کر رہی ہے جو 1967کی اپوزیشن کر رہی تھی؟ کیا ہم آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں؟ ہم مولانا فضل الرحمٰن سے سو اختلاف کریں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ 2002میں عمران خان نے قومی اسمبلی میں اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کا ووٹ دیا تھا؟ آپ مولانا فضل الرحمٰن کو بنیاد پرست کہیں یا انتہا پسند، لیکن جب انہوں نے 1994میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلی دفعہ خطاب کیا تو عمران خان ابھی سیاست میں نہ آئے تھے۔
ہم کئی معاملات پر مولانا صاحب سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے بلٹ کے بجائے بیلٹ کی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ بیلٹ باکس میں ووٹوں کی چوری کا شکوہ انہوں نے 2018میں شروع نہیں کیا، وہ تو 1990سے یہی شکوہ کر رہے ہیں۔ مولانا پر بہت دبائو ڈالا گیا کہ آپ بیلٹ کا راستہ چھوڑ دیں اور بلٹ کے ذریعہ پاکستان میں شریعت نافذ کریں، جب انہوں نے انکار کیا تو ان پر بار بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ 23اکتوبر 2014کو کوئٹہ میں ہونے والا خودکش حملہ اتنا خوفناک تھا کہ اس کے بعد کچھ لوگوں نے کہا کہ مولانا کو سیاست چھوڑ دینی چاہئے۔
مولانا سیاست چھوڑ دیتے تو یہ بلٹ والوں کی کامیابی کہلاتی لیکن انہوں نے بیلٹ کا راستہ نہیں چھوڑا۔ اسی بیلٹ کے راستے پر چلتے ہوئے وہ نواز شریف سے جاملے جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی زندگی میں اکتوبر بہت اہم رہا ہے۔
پچھلے سال ان کا آزادی مارچ اکتوبر میں شروع ہوا تو وہ تنہا تھے۔ اس سال پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ گیارہ اکتوبر کو کوئٹہ میں ہوگا تو وہ تنہا نہیں ہوں گے۔ حکومت نے نواز شریف کی تقاریر نشر کرنے پر علانیہ اور مولانا فضل الرحمٰن کی تقاریر نشر کرنےپر غیرعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔
پابندیوں کے خلاف اس تحریک میں مولانا نے پی ڈی ایم کو قائم رکھا تو وہ آج کے ایوب خان کو شکست دیدیں گے بصورت دیگر جدوجہد تو جاری رہے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔