بلاگ
Time 08 اکتوبر ، 2020

غداری مبارک

فائل فوٹو

کوئی مانے یا نہ مانے، ہمارے ارد گرد جو کچھ بھی ہو رہا ہے بہت برا ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کی قیادت کے خلاف بغاوت کے ایک مقدمے نے صرف حکومت نہیں بلکہ پوری ریاست کے اندر چھپے ہوئے تضادات کو پوری دنیا کے سامنے لا پھینکا ہے۔ 

پاکستان میں اپوزیشن کی قیادت کے خلاف بغاوت کے الزامات اور مقدمات کوئی نئی بات نہیں لیکن جس تیزی کے ساتھ تھانہ شاہدرہ لاہور میں مسلم لیگ ن کی قیادت کیخلاف درج ہونے والا بغاوت کا مقدمہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کیلئے سامانِ رسوائی بنا ہے اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اِدھر مقدمہ درج ہوا، اُدھر وزیراعظم صاحب نے مقدمے سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا۔ 

چلیں مان لیتے ہیں کہ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے اور وفاقی حکومت کا براہِ راست ایسے مقدمات کے درج ہونے سے کوئی تعلق نہیں لیکن پنجاب کے آئینی سربراہ گورنر محمد سرور نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ سیاسی لوگوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کے حق میں نہیں۔

دوسری طرف لاہور پولیس نے ایک باقاعدہ بیان جاری کرکے کہا کہ ایک عام شہری کی شکایت پر قانون کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن یہ عام شہری پاکستان تحریک انصاف کا سرگرم کارکن نکلا۔ ناصرف سرگرم کارکن نکلا بلکہ اِس کے خلاف ماضی میں پانچ مقدمات بھی درج ہو چکے ہیں اور اِس کا شمار اپنے علاقے کے نامی گرامی جرائم پیشہ افراد میں ہوتا ہے۔ 

مقدمے کے مدعی کے متعلق صحافیوں کو زیادہ معلوم نہ تھا لیکن لاہور پولیس کے کچھ اہلکاروں نے رضاکارانہ طور پر خاموشی سے کچھ صحافیوں کو بدر رشید خان ہیرا کے متعلق معلومات فراہم کیں اور بتایا کہ بغاوت کے اس مقدمے کا مدعی دراصل ایک اشتہاری اور جرائم پیشہ شخص ہے جو تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے ذریعے اکثر پولیس پر دبائو ڈالتا رہتا ہے۔ 

اس شخص کے کئی بااثر لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور انہی بااثر لوگوں کے کہنے پر پولیس نے بلاسوچے سمجھے مسلم لیگ ن کے چالیس سے زائد رہنمائوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا حالانکہ لاہور پولیس کے ایک سینئر افسر نے زبانی طور پر اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ واضح ڈائریکشن دے چکے ہیں کہ تعزیزاتِ پاکستان کی دفعہ 124اے کے تحت بغاوت کا مقدمہ صرف صوبائی یا وفاقی حکومت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کا کوئی اہلکار درج کروا سکتا ہے لیکن اس معاملے میں تو اپوزیشن کو غدار ثابت کرنے کیلئے ایک ایسے شخص کی خدمات حاصل کی گئیں جو کئی دفعہ ناجائز اسلحے کے ذریعہ قانون کی دھجیاں بکھیر چکا ہے۔

جلد بازی میں پولیس نے اپنا نہیں، پوری حکومت کا باجا بجا دیا۔ اس مقدمے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک جرائم پیشہ شخص کی درخواست پر آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر پر پاکستان کے دل لاہور میں بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 

اس مقدمے کے بعد آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیریوں میں غصے اور افسوس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ آپ راجہ فاروق حیدر سے سیاسی اختلاف ضرور کریں لیکن یاد رکھیں کہ وہ آر پار کے کشمیریوں کا واحد منتخب لیڈر ہے۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کو دوسال قبل ختم کر دیا تھا۔ 

قانون کے مطابق چھ ماہ کے اندر نئے انتخابات ہونا تھے لیکن یہ انتخابات نہیں ہوئے لہٰذا راجہ فاروق حیدر کی سیاسی اہمیت یہ ہے کہ وہ پورے خطہ جموں و کشمیر کے واحد منتخب لیڈر ہیں اور بھارتی ظلم و ستم کے خلاف اپنی بساط سے بڑھ کر آواز اُٹھاتے رہتے ہیں۔ 

بھارتی حکومت کی راجہ فاروق حیدر سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ ستمبر 2018میں لائن آف کنٹرول کے قریب عباس پور کے علاقے میں بھارتی فوج نے اُن کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی اور گولے برسائے۔ راجہ فاروق حیدر اِس قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ وہ ملٹری ہیلی کاپٹر میں نہیں بلکہ سویلین ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے اور ایل او سی کے آس پاس یہ روایت ہے کہ سویلین ہیلی کاپٹروں پر حملہ نہیں کیا جاتا لیکن راجہ فاروق حیدر کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ 

بھارتی فوج اُن کے حسب نسب سے بھی واقف ہے۔ اُن کے والد راجہ محمد حیدر خان اُن کشمیری رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے 1958میں سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کیا اور گرفتار کر لئے گئے۔ اُن کی والدہ محترمہ سعیدہ خان کا تعلق سرینگر سے تھا اور وہ آزاد کشمیر اسمبلی کی پہلی خاتون رکن تھیں۔ اِنہی کی وجہ سے راجہ فاروق حیدر کشمیری زبان بھی بولتے ہیں۔ کیا اِس راجہ فاروق حیدر پر لاہور پولیس نے بغاوت کا مقدمہ درج کرکے کشمیریوں کے دشمن نریندر مودی کو خوش کیا؟ 

یہ پہلو باعثِ اطمینان ہےکہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے اکثر وزراء بغاوت کے اس مقدمے کو آگے چلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو اس مقدمے کا بہت سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ عمران خان اپنے آپ کو بڑے فخر سے کشمیریوں کا سفیر قرار دیتے تھے لیکن بغاوت کے اس مقدمے سے عالمی سطح پر کشمیر کے بارے میں پاکستان کا مقدمہ کمزور ہوا ہے۔ 

جس قسم کے الزامات بھارتی حکومت سید علی گیلانی، یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق پر لگاتی ہے وہی الزام پاکستانی حکومت نے راجہ فاروق حیدر پر لگا دیا۔ اس مقدمے کا مرکزی ملزم سابق وزیراعظم نوازشریف کو بنایا گیا۔ بغاوت کے مقدمے میں اُن کا نام دیکھ کر مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کیلئے کئی لالچ دیے لیکن نواز شریف نے 28مئی 1998کو پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنا دیا۔ نواز شریف پر اُن کے دور حکومت میں یہ ناچیز بہت تنقید کرتا رہا ہے لیکن تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس حقیقت پر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ایٹمی پروگرام کے بانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہم نے پھانسی پر لٹکا دیا اور ایٹمی دھماکے کرنے والے وزیراعظم نواز شریف کو غدار بنا دیا گیا۔ 

پاکستانی ریاست نے غداری کے الزام کو اب ایک مذاق بنا دیا ہے۔ عام لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنرل پرویز مشرف آئین توڑنے کے باوجود غدار نہیں تو پھر یہاں کوئی غدار نہیں۔ جنرل ایوب خان نے جو الزام فاطمہ جناح پر لگایا تھا وہ الزام نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر لگ گیا ہے، اسی لئے اس مقدمے کے ملزمان ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔