Time 12 اکتوبر ، 2020
بلاگ

مولانا کارل مارکس

جب کوئی منتخب وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں سیاسی مخالفین کو دھمکیاں دے اور یہ تاثر دینے لگے کہ اداروں کے ساتھ اُس کی کوئی لڑائی نہیں اور تمام ریاستی ادارے اُسکی حمایت کر رہے ہیں تو یہ مطلب لینا غلط نہ ہوگا کہ جناب وزیراعظم اندر سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر پر اتنی زیادہ تنقید کی کہ اُن کے اپنے ساتھی بھی حیران رہ گئے۔

محمد زبیر نے کچھ دن پہلے جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایرانی انقلاب کے قائد امام خمینی بیرون ملک بیٹھ کر ایران میں تبدیلی لا سکتے ہیں تو نواز شریف بھی لا سکتے ہیں۔ عمران خان نے اِسی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے محمد زبیر کا خوب مذاق اُڑایا۔ عمران خان کے یہ طعنے سنتے ہوئے مجھے خدشہ ہوا کہ ابھی چند لمحوں میں وزیراعظم پاکستان کی طرف سے عطاء الحق قاسمی پر بھی حملہ ہوگا کیونکہ چند دن پہلے اُنہوں نے بھی کارل مارکس پر ایک کالم لکھا تھا۔

قاسمی صاحب نے کارل مارکس اور نواز شریف میں مماثلت تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی لیکن اُنہوں نے اپنے کالم میں مارکس کے ساتھ ساتھ اُس کی مشہور تصنیف ’’داس کیپٹل‘‘ کا بھی ذکر کیا، جو روس میں انقلاب کی وجہ بنی تھی لہٰذا اُن پر یہ شک کیا جا سکتا تھا کہ وہ پاکستان میں انقلابی سوچ پیدا کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں لیکن لگتا ہے کہ قاسمی صاحب کا یہ کالم حکمران اشرافیہ کے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ جب حکمران اندر سے عدم تحفظ کا شکار ہوں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ جھاڑنے لگتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں اُن کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔

عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں صاف صاف لکھا کہ وہ کارل مارکس کی عظمت کو سلام کرنے لندن میں اُن کی قبر پر حاضری دے چکے ہیں لیکن حکمرانوں کو سمجھ ہی نہ آئی کہ قاسمی صاحب کی نیت کیا ہے؟ کارل مارکس کے ساتھ اُس کی زندگی میں ایسا کئی دفعہ ہوا کہ وہ چھوٹی چھوٹی گستاخیوں پر پابندیوں اور جلاوطنی کا شکار ہوا لیکن جب اُس نے ’’داس کیپٹل‘‘ لکھی تو اُس کے دشمنوں کو سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کتاب سرمایہ داری نظام کیلئے ایک مستقل خطرہ بن جائے گی۔ یہ کتاب اُس کے دشمنوں کے سر پر سے گزر گئی۔

کارل مارکس جرمنی میں پیدا ہوا تھا۔ اُس نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی لیکن اُس کا ذریعہ معاش صحافت تھی۔ وہ اپنے اخبار کا ایک کامیاب ایڈیٹر تھا، جو ہمیشہ سنسر شپ کا مذاق اُڑاتا۔ ایک دفعہ اُس نے اپنے اخبار میں لکھا کہ ہمارا اخبار پولیس کو سونگھنے کیلئے بھجوایا جاتا ہے اور اگر پولیس کے ناک میں کچھ گھس جائے تو اخبار مارکیٹ میں نہیں آتا۔ ایک دن اُس نے روس کے حکمران نکولس اول پر تنقید کر دی تو روسی حکومت نے جرمن حکومت کو کہہ کر مارکس کا اخبار بند کرا دیا۔

اُس نے کولون کے ایک اخبار میں لکھنا شروع کیا تو یہ اخبار بھی بند ہو گیا۔ پھر وہ پیرس چلا گیا جہاں اُس کی ملاقات اینگلز سے ہوئی اور اُنہوں نے ایک اور اخبار شروع کیا۔ فرنچ حکومت نے ناصرف یہ اخبار بند کر دیا بلکہ مارکس کو فرانس سے نکال دیا۔ وہ کچھ عرصہ بیلجئم میں جلاوطن رہا اور آخر کار کارل مارکس اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ لندن آگیا۔ یہاں وہ ایک امریکی اخبار ڈیلی ٹریبیون کیلئے لکھنے لگا لیکن تنخواہ بہت کم تھی۔

بھوک اور افلاس کے باعث اُس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی انتقال کر گئے۔ اُس نے تمام عمر کرائے کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں گزاری لیکن وہ ہمیشہ غریب اور محنت کش طبقے کے ساتھ ہونے والے استحصال کے خلاف مزاحمت کرتا رہا۔ اُس کی یہ مزاحمت ’’داس کیپٹل‘‘ کی صورت میں سامنے آئیِ جسے اس نے اینگلز کی مدد سے لندن میں شائع کیا، اِس کتاب کو برطانیہ میں کوئی پذیرائی نہ ملی۔

جب اِس کتاب کا روسی زبان میں ترجمہ ہوا اور روسی حکومت کے سنسر بورڈ نے اُسے پاس کر دیا تو مارکس بڑا حیران ہوا۔ اُس کی کتاب روس کے ظالم حکمرانوں کے سر پر سے گزر گئی تھی اور پھر اِسی کتاب کے پیدا کردہ شعور نے روس کو 1917میں انقلاب سے ہمکنار کیا جس پر علامہ اقبال ؒنے کہا:

گیا دورِ سرمایہ داری گیا

تماشا دکھا کر مداری گیا

کارل مارکس کی کتاب ’’داس کیپٹل‘‘ کی پاکستان میں اشاعت کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ اِس تاریخی کتاب کا اردو میں ترجمہ ایک مشکل کام تھا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اُس کتاب کو ترجمہ کرانے کی کئی کوششیں کیں لیکن ناکام رہے۔ آخر کار اُنہوں نے یہ کام سید محمد تقی صاحب کو سونپا۔ یہ جنرل ایوب خان کا زمانہ تھا اور مولوی عبدالحق سرکاری سرپرستی میں انجمنِ ترقی اردو چلا رہے تھے۔

ترجمہ مکمل ہو گیا تو مولوی عبدالحق نے جناح اسپتال کراچی کے اسپیشل وارڈ کے کمرہ 13سے کتاب کا مختصر مقدمہ تحریر کیا اور کچھ عرصہ بعد ’’داس کیپٹل‘‘ کا پہلا اردو ترجمہ 1961میں انجمنِ ترقی اردو نے شائع کیا۔ کتاب شائع ہوئی تو بابائے اردو انتقال کر چکے تھے اور انجمنِ ترقی اردو کو کمشنر کراچی چلا رہے تھے جبکہ انتظامی کمیٹی میں ڈاکٹر ریاض الحسن اور جمیل الدین عالی شامل تھے۔ کتاب مارکیٹ میں آئی تو کچھ اداروں نے شور مچا دیا کہ یہ کیا ہو گیا؟ اگر کتاب ضبط کرتے تو ناشرین کے خلاف کارروائی کرنا پڑتی۔ اصل ناشر کا انتقال ہو چکا تھا اور کاغذی ناشر کمشنر کراچی تھے لہٰذا خاموشی اختیار کر لی گئی اور دوبارہ یہ ترجمہ شائع نہ کیا گیا لیکن بعد میں سید محمد تقی کے اِس شاہکار ترجمے کو دارالشعور لاہور نے شائع کیا اور اُس کے ٹائٹل پر کارل مارکس کی تصویر بھی لگائی۔

یہ تصویر دیکھ کر مارکس پر کسی مولانا کا گمان گزرتا ہے کیونکہ مارکس کی داڑھی بہت لمبی تھی۔ یہاں یہ ذکر مناسب ہوگا کہ ’’اقبال اور کارل مارکس کا فکری قرب و بُعد‘‘ پر ایک بہت اچھی کتاب حال ہی میں نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد نے بھی شائع کی ہے۔ آسیہ میر کی اس کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ہر انقلاب کسی نظریے سے جنم لیتا ہے اور نظریہ حالات سے جنم لیتا ہے۔ انقلابِ روس کا نظریہ مارکس نے لندن میں بیٹھ کر تحریر کیا اور لینن نے انقلابِ روس کی قیادت کی۔ انقلابِ ایران کا نظریہ دراصل ڈاکٹر علی شریعتی کی تخلیق تھی اور ڈاکٹر علی شریعتی بھی اقبال سے متاثر تھے۔ اُنہوں نے اقبال پر دو کتابیں لکھیں۔

اُن کے اجاگر کردہ شعور سے جنم لینے والے انقلاب کی قیادت امام خمینی نے کی جو لوگ پاکستان میں انقلاب کی باتیں کرتے ہیں اُنہیں پہلے انقلاباتِ عالم کی تاریخ پڑھنی چاہئے اور کسی نظریے کو اپنی سیاست کی بنیاد بنانا چاہئے۔ پاکستان میں پاور پالیٹکس ہو رہی ہے جس میں عمران خان، نواز شریف، بلاول اور مولانا فضل الرحمٰن ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں، اِس سیاسی لڑائی میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ واقعی اہم ہے لیکن اِس نعرے کے پیچھے کوئی ٹھوس نظریہ نہیں جس میں غریب اور مزدور طبقے کو اپنے مسائل کا حل نظر آئے۔

پاکستان میں تبدیلی اور انقلاب کے حالات موجود ہیں، نظریہ موجود نہیں اور جو لوگ کسی نظریے کے دعویدار ہیں اُنکے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اِن حالات میں تبدیلی کی کوشش ایک ایسا سیاسی طوفان بن سکتی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں غرق ہو جائیں گے اور پیچھے رہ جائیگا کوئی مولانا، جو کارل مارکس کا نظریہ تو لیکر نہیں چلے گا لیکن اُس کی شکل کارل مارکس جیسی ہو گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔