12 اکتوبر ، 2020
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مخصوص سیاسی جماعت کے ونگ کی تقریب میں شرکت پر وزیراعظم کو نوٹس جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے زیرسماعت مقدمے میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل کنونشن سینٹر میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے اور عدالت میں پیش نہ ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل پورے صوبے کا ہوتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے؟
وزیراعظم کسی جماعت یا گروپ کیساتھ خود کو نہیں جوڑ سکتے: عدالت عظمیٰ
عدالت نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان پورے ملک کے وزیراعظم ہوتے ہیں، وزیراعظم کسی جماعت یا گروپ کیساتھ خود کو نہیں جوڑ سکتے۔
عدالت نے مخصوص سیاسی جماعت کے ونگ کی تقریب میں شرکت پر وزیراعظم کو بھی نوٹس جاری کردیا جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان کوبھی معاملے پر معاونت کیلئے نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
عدالت نے وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل، صدر سپریم کورٹ بار اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کوطلب کرلیا۔
معاملہ ازخود نوٹس کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا رہے ہیں: جسٹس قاضی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیےکہ معاملہ ازخود نوٹس کیلئے چیف جسٹس پاکستان کو بھجوا رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں پروگرام میں شرکت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم نے پورے ملک سے ووٹ لیا، وہ کسی جماعت کےنہیں پاکستان کے وزیراعظم ہیں، سیاسی جماعت کی تقریب کیلئے سرکاری عمارت کنونشن سینٹرکا استعمال کیسے ہوا؟ اسلام آباد کی انتظامیہ بتائے کیا کنونشن سینٹر میں فیس ادا کی گئی؟
وزیراعظم کامعیار اتناکم ہے وہ خود کو کسی ایک جماعت سے وابستہ کرے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی نے کہا کہ کیا وزیراعظم کامعیار اتناکم ہے وہ خود کو کسی ایک جماعت سے وابستہ کرے؟ کیا کوئی جج بھی کسی سیاسی جماعت کے پینل کا فنکشن جوائن کرسکتا ہے؟ کیا کوئی جج بھی ایسی حرکت کرسکتا ہے، اس پر قانونی معیار کیا ہے؟
جسٹس قاضی فائز نے مزید ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پروفیشنل ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے ایک سیاسی جماعت کی تقریب میں بیٹھا ہے۔
اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نےکہا کہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب وکلا کی تقریب کی وجہ سے گئے۔
آپ بتائیں کیا وزیراعظم اور ایڈووکیٹ جنرل ایسا کرنے کے مجاز تھے؟ عدالت کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار
عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ پنجاب جنرل قاسم چوہان سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا وزیراعظم نے بطور وزیراعظم پروگرام میں شرکت کی؟ آپ بتائیں کیا وزیراعظم اور ایڈووکیٹ جنرل ایسا کرنے کے مجاز تھے؟ آپ جواب دیں تو شاید آپ کی نوکری چلی جائے لیکن قانون نوکری سے بالا ہونا چاہیے۔
عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میری تقرری سیاسی طور پر نہیں ہوئی، میں نے تقریب میں شرکت کی، نا ویڈیو دیکھی اس لیے رائے نہیں دے سکتا۔
جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی آئینی عہدیدار ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کرسکتا ہے؟ کیا اسلامک ری پبلک آف پاکستان میں ایسا ہوسکتا ہے؟
قرآن میں ہے کہ گواہی دو چاہے تمہارے والدین کے خلاف ہی کیوں نا ہو:
جسٹس قاضی فائز
معزز جج نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنی رائے دینے سے گریزاں ہیں، قرآن میں ہے کہ گواہی دو چاہے تمہارے والدین کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔
اس پر قاسم چوہان نے کہاکہ میں صرف پنجاب حکومت کی نمائندگی کر رہا ہوں، وزیراعظم کے بارے میں رائے نہیں دے سکتا۔
عدالت نے مزید کہا کہ بادی النظر میں ایڈووکیٹ جنرل صوبے کے مفاد کے دفاع کے اہل نہیں، عدالت کی رہنمائی کی جائے کیا وزیراعظم ایسی تقریب میں شرکت کرسکتے تھے؟ کیا وزیراعظم کا حلف اور قانون کی متعلقہ دفعات انہیں ایسے اقدام کی اجازت دیتی ہیں؟ کیا وزیراعظم سرکاری خرچ پر پرائیویٹ تقریب میں شرکت کرسکتے ہیں؟
عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو بھی نوٹس جاری کردیا۔